باب: دین کو بچانے کے لیے فتنوں سے بھاگنا (بھی ایمان کاجزہے )
)
Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Fleeing with the Religion from Tribulations)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5036.
حضرت ابو سعید خدری سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑی کی چوٹیوں یا بارشی علاقو ں میں چلا جا آ گا تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچائے۔“
تشریح:
(1) اپنے دین وایمان کی حفاطت کے لیے فتنوں سے بھاگ جانا بھی شعبہ ہائے ایمان میں سے ایک عظیم شعبہ ہے، اس لیے بوقت ضرورت ایک ایمان دار شخص کو فتنوں کی آماجگاہ اور فتنہ پرور لوگوں سے اپنا دین وایمان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کر لینی چاہیئے، شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔ (2) یہ حدیث مبارکہ بکریاں پالنے اور چرانے وغیرہ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے، نیز اپنا دین محفوظ کرنے کے لیے الگ تھلگ حتیٰ کہ پہاڑ کی چوٹی کو اپنا مسکن بنا لینے کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ دلائل نبوت میں سے آپ کی نبوت پر ایک عظیم دلیل ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں فتنوں کی خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے گاہے گاہے سر اٹھاے رہتے ہیں حتی کہ بسااوفات ایک ذہین وفہیم مومن بھی حیران وششدر ہوتا ہے کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا چا ہئیے اور اپنا دین ان فتنوں سے کس طرح بچانا چاہیئے۔ (4) اسلام میں رہبانیت اور گوشہ نشینی نہیں، خواہ وہ عبادت کے لیے ہی ہوبلکہ لوگوں میں رہ کر عبادات بجا لانا اسلامی طریقہ ہے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی دین پر قائم کرنے کی کوشش کر سکے۔ البتہ جب حالات اتنے سنگین ہو جائیں کہ لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا ممکن نہ ہو اور اس کے رہنے سے لوگوں کو بھی کوئی شرعی فائدہ نہ ہوتو پھر گوشہ نشینی جائز ہےجیسا کہ حدیث میں بیان ہے۔ (5) بارشی علاقے سے مراد وادیاں ہیں جہاں بارش کاپانی جمع ہو تا ہے۔ یا وہ جگہیں ہیں جہاں بارشیں زیادہ برستی ہیٔں، پھراس سے مراد بھی پہاڑی علاقے ہی ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5050
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5051
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5039
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑی کی چوٹیوں یا بارشی علاقو ں میں چلا جا آ گا تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اپنے دین وایمان کی حفاطت کے لیے فتنوں سے بھاگ جانا بھی شعبہ ہائے ایمان میں سے ایک عظیم شعبہ ہے، اس لیے بوقت ضرورت ایک ایمان دار شخص کو فتنوں کی آماجگاہ اور فتنہ پرور لوگوں سے اپنا دین وایمان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کر لینی چاہیئے، شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔ (2) یہ حدیث مبارکہ بکریاں پالنے اور چرانے وغیرہ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے، نیز اپنا دین محفوظ کرنے کے لیے الگ تھلگ حتیٰ کہ پہاڑ کی چوٹی کو اپنا مسکن بنا لینے کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ دلائل نبوت میں سے آپ کی نبوت پر ایک عظیم دلیل ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں فتنوں کی خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے گاہے گاہے سر اٹھاے رہتے ہیں حتی کہ بسااوفات ایک ذہین وفہیم مومن بھی حیران وششدر ہوتا ہے کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا چا ہئیے اور اپنا دین ان فتنوں سے کس طرح بچانا چاہیئے۔ (4) اسلام میں رہبانیت اور گوشہ نشینی نہیں، خواہ وہ عبادت کے لیے ہی ہوبلکہ لوگوں میں رہ کر عبادات بجا لانا اسلامی طریقہ ہے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی دین پر قائم کرنے کی کوشش کر سکے۔ البتہ جب حالات اتنے سنگین ہو جائیں کہ لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا ممکن نہ ہو اور اس کے رہنے سے لوگوں کو بھی کوئی شرعی فائدہ نہ ہوتو پھر گوشہ نشینی جائز ہےجیسا کہ حدیث میں بیان ہے۔ (5) بارشی علاقے سے مراد وادیاں ہیں جہاں بارش کاپانی جمع ہو تا ہے۔ یا وہ جگہیں ہیں جہاں بارشیں زیادہ برستی ہیٔں، پھراس سے مراد بھی پہاڑی علاقے ہی ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ زمانہ قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی، جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش ہونے کی جگہوں میں چلا جائے گا، وہ اس طرح فتنوں سے اپنے دین کو بچائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said: "The Messenger of Allah(صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Soon the best wealth of a Muslim will be the sheep which follows in the mountain peaks and places where rainfall is to be found, fleeing with his religion from the tribulations.