Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: The Sign of the Believer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5039.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں بن سکتا حتیٰ کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کر جو اپنے لیے کرتا ہے۔“ کتات الایمان اختتام پذیر ہوئی۔ قاضی ابن کسار کہتے ہیں کہ میں نے عبد الصمد بخاری سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ حفص بن عمر جو (حدیث:5000میں ) عبد الرحمٰن بن مہدی سے بیان کرتے ہیں میں انھیں نہیں جانتا۔ ہاں اگروہ حفص بن عمر و ربالی ہوں جو عمو بصریوں سے روایت کرتے ہیں تو وہ ثقہ راوی ہیں۔ قاضی کہتے ہیں کہ انھیں یہ کہتے ہوئےبھی سنا: میں نہیں جانتا کہ انس بن مالک سے مرفوع روایت ہے (امر ت ان اقاتل ....)(واستقبلوا قبلتنا)..... کے اضافے کے ساتھ سوائے عبد اللہ بن مبارک اور یحی ٰ بن ایوب مصری کےکسی نے حیمد الطویل سے بیان کی ہو۔ اور وہ اسی جز میں باب علی مایقاتل الناس کے تحت گزرچکی ہے۔
تشریح:
عبارت یہاں بے محل ہے ۔ حفض بن عمر کی بحث کا تعلق حدیث: 5000 سے ہے اور اس میں بھی راجح یہی ہے کہ یہ حفض بن عمر ہی ہے اور عبدالصمد کا دعوائے تصحیف درست نہیں ۔دیکھییے(ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی :37/249) دوسری بات حدیث: 5006سے متعلق ہے ۔اس میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ (واستقبلو ا قبلتنا ......) کا اضافہ حمید الطویل سے صرف عبد اللہ بن مبارک اور یحیٰ بن ایوب مصری بیان کرتے ہیں تو بھی درست نہیں کیونکہ محمد بن عیسیٰ بھی حمید الطویل سے یہ اضافہ نقل کرتے ہیں جیسا کہ باب تحریم الدم ، حدیث3971 میں ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی :37/392)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5053
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5054
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5042
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں بن سکتا حتیٰ کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کر جو اپنے لیے کرتا ہے۔“ کتات الایمان اختتام پذیر ہوئی۔ قاضی ابن کسار کہتے ہیں کہ میں نے عبد الصمد بخاری سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ حفص بن عمر جو (حدیث:5000میں ) عبد الرحمٰن بن مہدی سے بیان کرتے ہیں میں انھیں نہیں جانتا۔ ہاں اگروہ حفص بن عمر و ربالی ہوں جو عمو بصریوں سے روایت کرتے ہیں تو وہ ثقہ راوی ہیں۔ قاضی کہتے ہیں کہ انھیں یہ کہتے ہوئےبھی سنا: میں نہیں جانتا کہ انس بن مالک سے مرفوع روایت ہے (امر ت ان اقاتل ....)(واستقبلوا قبلتنا)..... کے اضافے کے ساتھ سوائے عبد اللہ بن مبارک اور یحی ٰ بن ایوب مصری کےکسی نے حیمد الطویل سے بیان کی ہو۔ اور وہ اسی جز میں باب علی مایقاتل الناس کے تحت گزرچکی ہے۔
حدیث حاشیہ:
عبارت یہاں بے محل ہے ۔ حفض بن عمر کی بحث کا تعلق حدیث: 5000 سے ہے اور اس میں بھی راجح یہی ہے کہ یہ حفض بن عمر ہی ہے اور عبدالصمد کا دعوائے تصحیف درست نہیں ۔دیکھییے(ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی :37/249) دوسری بات حدیث: 5006سے متعلق ہے ۔اس میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ (واستقبلو ا قبلتنا ......) کا اضافہ حمید الطویل سے صرف عبد اللہ بن مبارک اور یحیٰ بن ایوب مصری بیان کرتے ہیں تو بھی درست نہیں کیونکہ محمد بن عیسیٰ بھی حمید الطویل سے یہ اضافہ نقل کرتے ہیں جیسا کہ باب تحریم الدم ، حدیث3971 میں ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی :37/392)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Anas bin Malik (RA) that: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)(صلی اللہ علیہ وسلم) said: "None of you has believed until he loves for his brother what he loves for himself.