باب: حاکم فریق ثانی کو معافی کا مشورہ بھی دے سکتا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: The Ruler Suggesting That the Disputant Should Pardon)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5415.
حضرت وائل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا جب ایک مقتول کا ولی قاتل کو چمڑے کی تندی کے ساتھ جکڑ کا لایا۔ رسول اللہ ﷺ نے مقتول کی ولی سے فرمایا: ”کیا تو معاف کرتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل کرے گا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو اس کو لے جا۔“ جب وہ اس کو لے کر چل پڑا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل ہی کرے گا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اسے لے جا۔“ جب وہ لے چلا تو آپ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا: ”معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر ضرور قتل ہی کرے گا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اسے معاف کردے تو وہ اپنے گناہ اور تیرے مقتول کے گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔“ یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا۔ میں نے دیکھا، وہ اپنی تندی (رسی) کو اسی طرح گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا۔
تشریح:
جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ معافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: ۴۷۲۶، ۴۷۳۵)
حضرت وائل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا جب ایک مقتول کا ولی قاتل کو چمڑے کی تندی کے ساتھ جکڑ کا لایا۔ رسول اللہ ﷺ نے مقتول کی ولی سے فرمایا: ”کیا تو معاف کرتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل کرے گا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تو اس کو لے جا۔“ جب وہ اس کو لے کر چل پڑا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”دیت لے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل ہی کرے گا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر اسے لے جا۔“ جب وہ لے چلا تو آپ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا: ”معاف کرے گا؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر ضرور قتل ہی کرے گا؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اسے معاف کردے تو وہ اپنے گناہ اور تیرے مقتول کے گناہ کا ذمہ دار ہوگا۔“ یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا اور چھوڑ دیا۔ میں نے دیکھا، وہ اپنی تندی (رسی) کو اسی طرح گھسیٹتا ہوا جا رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ معافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: ۴۷۲۶، ۴۷۳۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
وائل ؓ کہتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتا ہوا لایا، رسول اللہ ﷺ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کر دو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اسے قتل کرو گے؟“ کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ“ (اور قتل کرو) جب وہ چلا اور آپ کے پاس سے چلا گیا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”کیا معاف کر دو گے؟ “ کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”دیت لو گے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو اسے قتل کرو گے؟“ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“ (اور قتل کرو) جب وہ چلا اور آپ کے پاس سے چلا گیا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”کیا معاف کر دو گے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”دیت لو گے؟“ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو اسے قتل کرو گے؟“ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“ (اور قتل کرو) پھر رسول اللہ ﷺ نے اس وقت فرمایا: ”اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے گناہ اور تمہارے ( مقتول ) ساتھی کے گناہ سمیٹ لے گا“، یہ سن کر اس نے معاف کر دیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کھینچ رہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Wa'il said: "I saw the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) when a killer was brought by the heir of the victim by a string. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said to the heir of the victim: 'Will you forgive him?' He said: 'No.' He said: 'Will you accept the Diyah?' He said: 'No.' He said: 'Will you kill him?' He said: 'Yes.' He said: 'Take him away.' When he went and turned away from him, he called him back and said: 'Will you forgive him?' He said: 'No.' He said: 'Will you accept the Diyah?' He said: 'No.' He said: 'Will you kill him?' He said: 'Yes.' He said: 'Take him away.' When he went and turned away from him, he called him back and said: 'Will you forgive him?' He said: 'No.' He said: 'Will you accept the Diyah?' He said: 'No.' He said: 'Will you kill him?' He said: 'Yes.' He said: 'Take him away.' At that point the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'But if you forgive him, he will carry his own sin and the sin of your companion.' So he forgave him, and I saw him dragging his string.