باب: پہلی نماز کا وقت ختم ہونےکے بعد دو نمازیں جمع کرنے کی صورت میں ایک ہی اذان کافی ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: The Adhan For One Who Is Combining Two Prayers After The Time Of The First Prayer Has Gone)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
657.
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ہم مزدلفہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ تھے۔ آپ نے اذان کہی، پھر اقامت کہی اور ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی، پھر فرمایا: نماز کے لیے اٹھو، چنانچہ آپ نے ہمیں عشاء کی نماز دو رکعت پڑھائی۔ میں نے کہا: یہ کیسی نماز ہے؟ فرمانے لگے: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس جگہ ایسے ہی نماز پڑھی تھی۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه بإسناد آخر بلفظ:
صلاها بإقامة واحدة.. وهو شاذ لمخالفته لهذه الرواية، ولحديث جابر الطويل
المتقدم (1663) ، وهي التي لم يرو البخاري غيرها عن ابن عمر، وهي الآتية) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا حماد بن خالد عن ابن أبي ذئب عن
الزهري... بإسناده ومعناه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير حماد بن خالد- وهو
الخَياط القرشي-، فهو على شرط مسلم وحده، وقد توبع كما يأتي في الرواية
التالية.
والحديث في "المسند" (2/157) ... بهذا السند والمتن؛ دون قوله: قال
وكيع...
واعلم أن هذا الحديث- مع صحته- قد اضطرب الرواة في ضبط أمرين منه:
الأول: هل الإقامة كانت لكل من صلاتي المغرب والعشاء- كما في هذه
الرواية- أم لهما معاً- كما في الروايات الآتية-؟ !
والآخر: هل أذَّنَ لهما أم لا؟ فمنهم من نفى- كما في الرواية الثالثة-،
ومنهم من أثبت- كما في الرواية الثامنة-.
والصواب من ذلك كله: الأذان والإقامتان؛ لموافقةِ الروايات المثبتة لذلك
حديثَ جابر الطويل المتقدم برقم (1663) ، ولأن رواية الإقامتين- وهي الثالثة-
هي التي لم يعتمد غيرها الإمام البخاري، فلم يخرج سواها.
ويشهد لها حديث أسامة بن زيد المتقدم برقم (1677 و 1681) ؛ ففيه
التصريح بالإقامتين. وقد فصل الإمام ابن القيم في "تهذيب السنن " (2/400-
402) القول في اضطراب هذا الحديث، وأقوال العلماء في المسألة، وانتهى إلى
القول:
" والصحيح في ذلك كله: الأخذ بحديث جابر، وهو الجمع بينهما بأذان
وإقامتين؛ لوجهين اثنين:
أحدهما: أن الأحاديث سواه مضطربة، فهذا حديث ابن عمر في غاية
الاضطراب... (ثم بين ذلك بياناً شافياً، ثم قال) .
الوجه الثاني: أنه قد صح من حديث جابر في جمعه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعرفة،: أنه جمع
بينهما بأذان وإقامتين، ولم يأت في حديث ثابت قط خلافه. والجمع بين
الصلاتين بمزدلفة كالجمع بينهما بعرفة ، لا يفترقان إلا في التقديم والتأخير، فلو
فرضنا تدافع أحاديث الجمع بمزدلفة؛ لأخذنا حكَم الجمع من عرفة ".
حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ہم مزدلفہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ تھے۔ آپ نے اذان کہی، پھر اقامت کہی اور ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی، پھر فرمایا: نماز کے لیے اٹھو، چنانچہ آپ نے ہمیں عشاء کی نماز دو رکعت پڑھائی۔ میں نے کہا: یہ کیسی نماز ہے؟ فرمانے لگے: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس جگہ ایسے ہی نماز پڑھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر ؓ کے ساتھ مزدلفہ میں تھے، تو انہوں نے اذان دی پھر اقامت کہی، اور ہمیں مغرب پڑھائی، پھر کہا: عشاء بھی پڑھ لی جائے، پھر انہوں نے عشاء دو رکعت پڑھائی، میں نے کہا: یہ کیسی نماز ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس جگہ ایسی ہی نماز پڑھی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sa'eed bin Jubair said concerning Ibn 'Umar (RA): "We were with him (Ibn 'Umar) in Jam' (Muzdalifah), and he called the Adhan, then the Iqamah, then he led us in praying Maghrib. Then he said: 'The prayer,' and he led us in praying 'Isha', two Rak'ahs. I said: 'What is this prayer'? He said: 'This is how I prayed with the Messenger of Allah (ﷺ) in this place'".
حدیث حاشیہ:
الحكم على الحديث
اسم العالم
الحكم
١. فضيلة الشيخ الإمام محمد ناصر الدين الألباني
صحيح ، دون قوله : " ثم قال : الصلاة " و المحفوظ : " ثم أقام "