قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الرَّضَاعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ​(التَّحزِیرُ مِن ذَلِکَ لِجَریَانِ الشَّیطَانِ مِجرِیَ الدَّمِ))

حکم : صحیح 

1172. حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْكَ قَالَ وَمِنِّي وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ و سَمِعْت عَلِيَّ بْنَ خَشْرَمٍ يَقُولُ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي تَفْسِيرِ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ يَعْنِي أَسْلَمُ أَنَا مِنْهُ قَالَ سُفْيَانُ وَالشَّيْطَانُ لَا يُسْلِمُ وَلَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ وَالْمُغِيبَةُ الْمَرْأَةُ الَّتِي يَكُونُ زَوْجُهَا غَائِبًا وَالْمُغِيبَاتُ جَمَاعَةُ الْمُغِيبَةِ

مترجم:

1172.

  • جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' تم لوگ ایسی عورتوں کے گھروں میں داخل نہ ہو ، جن کے شوہرگھروں پر نہ ہوں، اس لیے کہ شیطان تم میں سے ہرایک کے اندر ایسے ہی دوڑتا ہے جیسے خون جسم میں دوڑتا ہے‘‘، ہم نے عرض کیا : آپ کے بھی؟ آپ نے فرمایا:' ہاں میرے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد کی ہے، اس لیے میں (اس کے شرسے) محفوظ رہتاہوں‘‘۔
    امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ بعض لوگوں نے مجالد بن سعید کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔
    ۲۔ سفیان بن عیینہ نبی اکرمﷺکے قول ’’ولكن الله اعانني عليه فاسلم‘‘ (لیکن اللہ نے میری مدد کی ہے اس لیے میں محفوظ رہتاہوں) کی تشریح میں کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ ’’میں اس شیطان سے محفوظ رہتاہوں‘‘، نہ یہ کہ وہ اسلام لے آیا ہے (کیونکہ): شیطان مسلمان نہیں ہوتا۔
    ۳۔’’ولاتلجوا على المغيبات‘‘ میں مغیبۃ سے مراد وہ عورت ہے، جس کا شوہر موجودنہ ہو، ’’مغيبات، مغيبة‘‘ کی جمع ہے۔