قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ​)

حکم : صحیح 

1233. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: مَا مَعْنَى نَهَى عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ؟ قَالَ: أَنْ يَكُونَ يُقْرِضُهُ قَرْضًا ثُمَّ يُبَايِعُهُ عَلَيْهِ بَيْعًا يَزْدَادُ عَلَيْهِ. وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ يُسْلِفُ إِلَيْهِ فِي شَيْئٍ فَيَقُولُ: إِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عِنْدَكَ فَهُوَ بَيْعٌ عَلَيْكَ. قَالَ إِسْحَاقُ: (يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ) كَمَا قَالَ. قُلْتُ لأَحْمَدَ: وَعَنْ بَيْعِ مَا لَمْ تَضْمَنْ؟ قَالَ: لاَ يَكُونُ عِنْدِي إِلاَّ فِي الطَّعَامِ مَا لَمْ تَقْبِضْ، قَالَ إِسْحَاقُ كَمَا قَالَ، فِي كُلِّ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ، قَالَ أَحْمَدُ: إِذَا قَالَ أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ وَقَصَارَتُهُ. فَهَذَا مِنْ نَحْوِ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ. وَإِذَا قَالَ: أَبِيعُكَهُ، وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ فَلاَ بَأْسَ بِهِ. أَوْ قَالَ: أَبِيعُكَهُ وَعَلَيَّ قَصَارَتُهُ فَلاَبَأْسَ بِهِ. إِنَّمَا هُوَ شَرْطٌ وَاحِدٌ، قَالَ إِسْحَاقُ: كَمَا قَالَ

مترجم:

1233.

حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیزکے بیچنے سے منع فرمایا جومیرے پاس نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث حسن ہے۔
۲۔ اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: بیع کے ساتھ قرض سے منع فرمانے کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے کہا: اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو قرض دے پھر اس سے بیع کرے اور سامان کی قیمت زیادہ لے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی کسی سے کسی چیزمیں سلف کرے اور کہے: اگر تیرے پاس روپیہ فراہم نہیں ہوسکا توتجھے یہ سامان میرے ہاتھ بیچ دینا ہوگا۔ اسحاق (ابن راھویہ) نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے۔
۳۔ اسحاق بن منصور نے کہا: میں نے احمد سے ایسی چیز کی بیع کے بارے میں پوچھا جس کا بائع ضامن نہیں تو انہوں نے جواب دیا، (یہ ممانعت) میرے نزدیک صرف طعام کی بیع کے ساتھ ہے جب تک قبضہ نہ ہویعنی ضمان سے قبضہ مراد ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جواحمد نے کہی ہے لیکن یہ ممانعت ہر اس چیز میں ہے جوناپی یا تولی جاتی ہو۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب بائع یہ کہے: میں آپ سے یہ کپڑا اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہے۔ تو بیع کی یہ شکل ایک بیع میں دوشرط کے قبیل سے ہے۔ اور جب بائع یہ کہے : میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ ا س کی سلائی میرے ذمہ ہے۔ یابائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ اس کی دھلائی میرے ذمہ ہے، تو اس بیع میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ ایک ہی شرط ہے۔اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جواحمد نے کہی ہے۔