تشریح:
وضاحت:
۱؎: قصہ (اختصار کے ساتھ ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرمﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا جائے، عمر نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سرقلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سو کھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلادیا جائے، نبی اکرمﷺ سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آکر فرمایا: اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کردیتاہے، ابوبکر کی مثال ابراہیم وعیسیٰ سے دی، عمر کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ کی موسیٰ علیہ السلام سے، پھر آپ نے ابوبکر کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا، دوسرے دن جب عمر آئے تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسولﷺ! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہوجاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ ﷺ نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہوگیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾ (الأنفال: 67).
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہوگی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہوگی۔
نوٹ: (ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)