قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ​)

حکم : صحیح 

2249. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَأْتِيكَ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَا يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَعْنِي الدَّجَّالَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مترجم:

2249.

عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمربن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہاتھا، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپﷺ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہوسکا یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا: میں گواہی دیتاہوں کہ آپ امیّوں کے رسول ہیں، پھرابن صیاد نے نبی اکرمﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لایا ہوں،‘‘ پھر نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا: ’’تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیزآتی ہے؟‘‘ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اورایک جھوٹا آتا ہے، پھر نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے اوپرتیرا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے‘‘، پھرآپﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اورآپ نے آیت: ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ﴾ ۱؎ چھپالی، ابن صیاد نے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) دخ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پھٹکارہوتجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا‘‘، عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑا دوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’اگروہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آسکتے اوراگروہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے‘‘۔
عبدالرزاق کہتے ہیں: (حقاً) سے آپﷺ کی مراد دجال ہے۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔