تشریح:
۱؎: ’’تم بھی اسے نہ کہو‘‘ سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے سرے سے ((بِسْمِ اللَّه)) پڑھنے ہی سے منع کیا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے جہراََ (بلند آواز) سے پڑھنے سے روکنے پر محمول کیا جائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ ’’ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا‘‘، اس جملے کا تعلق بلند آواز سے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جو جہراََ (زور) سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
۲؎: ((بِسْمِ اللَّه)) کے زور سے پڑھنے کے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ((صَلَّيْتُ وَرَاءَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَرَأ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآن حَتَّى إِذَا بَلَغَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ فَقَالَ: آمِيْن، فَقَالَ النَّاسُ: آمِيْن))، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں ((بِسْمِ اللَّه)) کا ذکر نہیں ہے، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ نعیم المحجر ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جا سکتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اور جہراً دونوں طرح سے جائز ہے لیکن اکثر اور زیادہ تر صحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں۔ (دیکھئے حدیث رقم:۲۴۶)
نوٹ: (بعض أئمہ نے ’’ابن عبداللہ بن مغفل‘‘ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام ’’یزید‘‘ بتایا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے)