تشریح:
۱ ؎: اس اثرکا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں، امام بیہقی نے (کتاب القراء ۃ ص: ۱۱۲) میں جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا یہ اثر نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: اس اثر میں نماز میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دو رکعات میں اس سورہ کی قرأت کے وُجوب کے قائل ہیں، نماز کی تمام رکعتوں کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہونے کی بھی دلیل ہے، اور جہاں تک جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی : ((إلَّا وَرَاءَ الإمَامِ)) والی بات کا تعلق ہے تو:
(۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا امام کے پیچھے اُس نماز میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کر دینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتا ہے۔
(۲) یہ بھی احتمال ہے کہ: اس سے مراد وہ رکعت ہو کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اور اس کے ساتھ مل جائے تو اُس کی یہ رکعت ہو جائے گی، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے۔
(۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثر درج کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما چار رکعات والی نماز پہلی دو رکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دو رکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اور پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی، (تو جابر رضی اللہ عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہو گئی) اور یہ کہ یہ لفظ عام ہے: اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی۔
(۴) عبیداللہ بن مُقسم کی روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: نماز میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ مصلًی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے...اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے: ((كؑنَّا نَتَحَدَّثُ)) تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمار کرتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)
نوٹ: (واضح رہے یہ جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے، اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا من أوهامه فإن أشهب بن عبد العزيز وإن كان ثقة فلم يخرج له الشيخان أصلا . ومحمد بن خلاد الاسكندراني لم يخرجا له أيضا وهو علة هذا الحديث عندي فإنه وإن وثقه ابن حبان وغيره فقد شذ في رواية الحديث بهذا اللفظ كما يشير إلى ذلك قول الدارقطني عقبه : ( تفرد به محمد بن خلاد عن أشهب عن ابن عيينة ) . وأوضحه ابن يونس بقوله فيه : ( يروي مناكير وانما المحفوظ عن الزهري بهذ السند : ( لا تجزي صلاة لا يقرأ فيها بأم القرآن ) . وزاده توضيحا الحافظ في اللسان فقال : ( هذا اللفظ تفرد به أيضا زياد بن أيوب عن ابن عيينة والمحفوظ من رواية الحفاظ عن ابن عيينة : لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب كذا رواه عنه أحمد بن حنبل وابن أبي شيبة وإسحاق بن راهويه وابن أبي عمر وعمر الناقد وخلائق . وبهذا اللفظ رواه أصحاب الزهري عنه : معمر وصالح بن كيسان والأوزاعي ويونس بن يزيد وغيرهم والظاهر ان رواتيه كل عن زياد بن أيوب وأشهب منقولة بالمعنى ) . ثم ذكر عنه الحاكم ما خلاصته ان محمد بن خلاد كان ثقة حتى ذهبت كتبه فمن سمع عنه قديما فسماعه صحيح
قلت : فلعله حدث بهذا الحديث بعدما ذهبت كتبه فأخطأ في لفظه . والله أعلم