قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ​)

حکم : حسن الاسناد 

3177. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ وَكَانَ رَجُلًا يَحْمِلُ الْأَسْرَى مِنْ مَكَّةَ حَتَّى يَأْتِيَ بِهِمْ الْمَدِينَةَ قَالَ وَكَانَتْ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَهَا عَنَاقٌ وَكَانَتْ صَدِيقَةً لَهُ وَإِنَّهُ كَانَ وَعَدَ رَجُلًا مِنْ أُسَارَى مَكَّةَ يَحْمِلُهُ قَالَ فَجِئْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى ظِلِّ حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ قَالَ فَجَاءَتْ عَنَاقٌ فَأَبْصَرَتْ سَوَادَ ظِلِّي بِجَنْبِ الْحَائِطِ فَلَمَّا انْتَهَتْ إِلَيَّ عَرَفَتْهُ فَقَالَتْ مَرْثَدٌ فَقُلْتُ مَرْثَدٌ فَقَالَتْ مَرْحَبًا وَأَهْلًا هَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ قُلْتُ يَا عَنَاقُ حَرَّمَ اللَّهُ الزِّنَا قَالَتْ يَا أَهْلَ الْخِيَامِ هَذَا الرَّجُلُ يَحْمِلُ أَسْرَاكُمْ قَالَ فَتَبِعَنِي ثَمَانِيَةٌ وَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ فَانْتَهَيْتُ إِلَى كَهْفٍ أَوْ غَارٍ فَدَخَلْتُ فَجَاءُوا حَتَّى قَامُوا عَلَى رَأْسِي فَبَالُوا فَظَلَّ بَوْلُهُمْ عَلَى رَأْسِي وَأَعْمَاهُمْ اللَّهُ عَنِّي قَالَ ثُمَّ رَجَعُوا وَرَجَعْتُ إِلَى صَاحِبِي فَحَمَلْتُهُ وَكَانَ رَجُلًا ثَقِيلًا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْإِذْخِرِ فَفَكَكْتُ عَنْهُ كَبْلَهُ فَجَعَلْتُ أَحْمِلُهُ وَيُعْيِينِي حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْكِحُ عَنَاقًا فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا حَتَّى نَزَلَتْ الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَرْثَدُ الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ فَلَا تَنْكِحْهَا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

مترجم:

3177.

عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں: مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار وبہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے ) آ گیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آ گئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کر پوچھا: مرثد ہو نا؟ میں نے کہا: ہاں، مرثد ہوں، ا س نے خوش آمدید کہا، (اور کہا:) آؤ، رات ہمارے پاس گزارو، میں نے کہا: عناق! اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے، اس نے شور کر دیا، اے خیمہ والو (دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھائے لیے جا رہاہے، پھر میرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑ پڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یا کھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا، وہ لوگ بھی اُوپر چڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہو کر۔ انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سر پر ٹپکیں، لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا، وہ ہمیں نہ د یکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کر مجھے لے جانا تھا) آ گیا، وہ بھاری بھر کم آدمی تھے، میں نے انہیں ا ٹھا کر (پیٹھ پر) لاد لیا، إذخر (کی جھاڑیوں میں) پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اور پھراٹھا کر چل پڑا، کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا) اس طرح میں مدینہ آ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسولﷺ! میں عناق سے شادی کر لوں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیت ﴿الزَّانِي لاَ يَنْكِحُ إِلاَّ زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لاَ يَنْكِحُهَا إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾۱؎ نازہوئی، آپﷺ نے (اس آیت کے نزول کے بعد مرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا: ’’اس سے نکاح نہ کرو‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اورہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔