قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث:

جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ​)

حکم : صحیح 

3340.01. قَالَ كَانَ مَلِكٌ مِنْ الْمُلُوكِ وَكَانَ لِذَلِكَ الْمَلِكِ كَاهِنٌ يَكْهَنُ لَهُ فَقَالَ الْكَاهِنُ انْظُرُوا لِي غُلَامًا فَهِمًا أَوْ قَالَ فَطِنًا لَقِنًا فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ فَيَنْقَطِعَ مِنْكُمْ هَذَا الْعِلْمُ وَلَا يَكُونَ فِيكُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ قَالَ فَنَظَرُوا لَهُ عَلَى مَا وَصَفَ فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِكَ الْكَاهِنَ وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ وَكَانَ عَلَى طَرِيقِ الْغُلَامِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ قَالَ مَعْمَرٌ أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَسْأَلُ ذَلِكَ الرَّاهِبَ كُلَّمَا مَرَّ بِهِ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَخْبَرَهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَمْكُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ وَيُبْطِئُ عَنْ الْكَاهِنِ فَأَرْسَلَ الْكَاهِنُ إِلَى أَهْلِ الْغُلَامِ إِنَّهُ لَا يَكَادُ يَحْضُرُنِي فَأَخْبَرَ الْغُلَامُ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ إِذَا قَالَ لَكَ الْكَاهِنُ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْ عِنْدَ أَهْلِي وَإِذَا قَالَ لَكَ أَهْلُكَ أَيْنَ كُنْتَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّكَ كُنْتَ عِنْدَ الْكَاهِنِ قَالَ فَبَيْنَمَا الْغُلَامُ عَلَى ذَلِكَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنْ النَّاسِ كَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِنَّ تِلْكَ الدَّابَّةَ كَانَتْ أَسَدًا قَالَ فَأَخَذَ الْغُلَامُ حَجَرًا فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ حَقًّا فَأَسْأَلُكَ أَنْ أَقْتُلَهَا قَالَ ثُمَّ رَمَى فَقَتَلَ الدَّابَّةَ فَقَالَ النَّاسُ مَنْ قَتَلَهَا قَالُوا الْغُلَامُ فَفَزِعَ النَّاسُ وَقَالُوا لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ قَالَ فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَى فَقَالَ لَهُ إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَكَ كَذَا وَكَذَا قَالَ لَهُ لَا أُرِيدُ مِنْكَ هَذَا وَلَكِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْكَ بَصَرُكَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَدَعَا اللَّهَ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ فَآمَنَ الْأَعْمَى فَبَلَغَ الْمَلِكَ أَمْرُهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَالَ لَأَقْتُلَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْكُمْ قِتْلَةً لَا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ أَعْمَى فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَى مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ وَقَتَلَ الْآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَى ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلَامِ فَقَالَ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْجَبَلِ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَبَلِ وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا الْغُلَامُ قَالَ ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِكُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَى الْبَحْرِ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَى الْبَحْرِ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ فَقَالَ الْغُلَامُ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لَا تَقْتُلُنِي حَتَّى تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَأَمَرَ بِهِ فَصُلِبَ ثُمَّ رَمَاهُ فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَى صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ ثُمَّ مَاتَ فَقَالَ أُنَاسٌ لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَقِيلَ لِلْمَلِكِ أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَكَ ثَلَاثَةٌ فَهَذَا الْعَالَمُ كُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوكَ قَالَ فَخَدَّ أُخْدُودًا ثُمَّ أَلْقَى فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَكْنَاهُ وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْكَ الْأُخْدُودِ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ حَتَّى بَلَغَ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ قَالَ فَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ دُفِنَ فَيُذْكَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأُصْبُعُهُ عَلَى صُدْغِهِ كَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

مترجم:

3340.01.

آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک بادشاہ تھا اس باد شاہ کا ایک کاہن تھا، وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتا تھا، اس کاہن نے بادشاہ سے کہا: میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو، راوی کو یہاں شبہہ ہو گیا کہ (غُلَامًا فَهِمًا) کہا یا  (فَطِنًا لَقِنًا) کہا (معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے،) میں اسے اپنا یہ علم سکھا دوں، کیوں کہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں مر گیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہو جائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو، آپﷺ فرماتے ہیں: اس نے جن صفات وخصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا، لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کاہن کے پاس حاضر ہوا کرے اور اس کے پاس بار بار آتا جاتا رہے وہ لڑکا اس کاہن کے پاس آنے جانے لگا، اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہا کرتا تھا (اس حدیث کے ایک راوی) معمر کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے، وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبردی، کہا: میں اللہ کی عبادت کرنے لگا ہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کر دیا، کاہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیا جایا کرے گا، لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتا دی، راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے؟ تو کہہ دیا کرو گھر والوں کے پاس تھا، اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے، راوی کہتے ہیں: غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہوا جنہیں ایک جانور نے روک رکھا تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا، لڑکے نے یہ کیا کہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ! راہب جو کہتا ہے اگر وہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کر دینے کی توفیق چاہتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کر دیا، لوگوں نے پوچھا: اسے کس نے مارا؟ جنہوں نے دیکھا تھا ، انہوں نے کہا: فلاں لڑکے نے، یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ، لوگوں نے کہا: اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا، یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا: اگر تو میری بینائی واپس لادے تو میں تجھے یہ دوں گا، لڑکے نے کہا: میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینا ئی عطا کرنے والے پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔ (بالکل ایمان لے آؤں گا)۔ راوی کہتے ہیں: لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی، یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا، ان کا معاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا،اس نے انہیں بلا بھیجا تو انہیں لا کر حاضر کیا گیا، اس نے ان سے کہا: میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کر ڈالوں گا، پھر اس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کر ڈالنے کا حکم دیا، ان میں سے ایک کے سر کے بیچوں بیچ (مانگ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کر دیا گیا، پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چنانچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اور جب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے، تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کر گرنے لگے، یہاں تک کہ صرف لڑکا باقی بچا، پھرجب وہ واپس آیا تو بادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیا کہ اسے سمندر میں لے جاؤ، اور اسے اس میں ڈبو کر آ جاؤ، اسے سمندر پر لے جایا گیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبو دیا، اور خود لڑکے کو بچا لیا، (لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا) اور اس سے کہا: تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو، اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلا رہا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے، بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا، لڑکا سولی پر لٹکا دیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا، اور تیر مارتے ہوئے کہا: (بِسمِ اللہِ رَبِّ ھذَا الغُلام) بادشاہ نے تیر چلایا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مر گیا (شہید) ہو گیا، لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں، ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں‘‘، آپﷺ نے فرمایا: ’’بادشاہ سے کہا گیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہو گئے ہیں (اب کیا کریں گے؟)‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس نے کئی ایک کھائیاں (گڈھے) کھود وائیں اوراس میں لکڑیاں ڈلوا دیں اور آگ بھڑکا دی، لوگوں کو اکٹھا کر کے کہا: جو اپنے (نئے) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے، پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا‘‘، آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتا ہے (پھرآپﷺ نے آیت ﴿قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ﴾ سے لے کر ﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ﴾ تک پڑھی۲؎۔ راوی کہتے ہیں: لڑکا (سولی پر لٹکا کر قتل کردیے جانے کے بعد) دفن کر دیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب ؓ کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا، اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔