تشریح:
وضاحت:
۱؎ : یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا، یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔
۲؎ : یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
۳؎ : اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی ﴿وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (سورة آل عمران :155) پوری آیت اس طرح ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (آل عمران:155) یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی ، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔