تشریح:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
۲؎: اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کو ئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔
۳؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: (سند میں ’’ابو اسحاق سبیعی‘‘ مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحح، وصححه ابن خزيمة، وحسنه الترمذي) . إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا عيسى عن زكريا عن أبي إسحاق عن عاصم عن علي.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ وفي عاصم- وهو ابن ضمرة- كلام لا يضر. لكن أبو إسحاق- وهو السبيعي- كان اختلط، ثم هو مدلس؛ وقد عنعنه. لكن يشهد لحديثه ما بعده؛ فهو به حسن إن شاء الله تعالى؛ بل هوصحيح لما يأتي بيانه. والحديث أخرجه النسائي (1/246) والترمذي (1/91) ، وابن ماجه (1169) ، وابن خزيمة في "صحيحه " (1/117/1) ، وابن نصر في "الوتر" (111) ، والحاكم (1/300) - شاهداً-، والبيهقي (2/عا 4) ، وأحمد (1/110) ، وابنه (1/143 و 148) من طرق عن أبي إسحاق... به. وقال الترمذي: " حديث حسن