تشریح:
۱؎: یعنی طاہر (پاک) اور مُطَہِّر (پاک کرنے والا) دونوں ہے۔
۲؎: سمندر کے مردار سے مراد وہ سمندری اور دریائی جانور ہے جو صرف پانی ہی میں زندہ رہتا ہو، نیز مردار کا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانور جو پانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اور خنزیر کے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’دو مردے حلال ہیں: مچھلی اورٹڈی‘‘، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیر و مثال جانور کھائے جاتے وہی سمندری مردار حلال ہے، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندر کا ہر وہ جانور(زندہ یا مردہ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ نہ ہو، اور نہ ہی خبیث قسم کا ہو جیسے کچھوا، اور کیکڑا وغیرہ، یہ دونوں اصول ضابطہ سمندری غیر سمندری ہر طرح کے جانور کے لیے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وحسنه الحافظ العراقي) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النُفَيْليّ: ثنا وكيع عن أسامة بن زيد عن ابن خَرَّبوذ عن أم صبية. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات، وفي أسامة بن زيد- وهو الليثي- كلام لا يضر ولا ينزل حديثه من رتبة الحسن؛ على أنه لم يتفرد به، كما يأتي، فالحديث صحيح. وابن خرّبوذ- بفتح الخاء المعجمة، وشدة الراء المهملة مفتوحة، وضم الموحدة،
وسكون الواو، ثمّ الذال المعجمة-؛ اسمه: سالم بن سَرْج أبو النعمان، وبعض الرواة يقول فيه: سالم بن النعمان؛ وقد وثقه ابن معين وغيره. والحديث أخرجه ابن ماج والطحاوي والبيهقي من طرق أخرى عن أسامة ابن زيد... به. وكذلك أخرجه أحمد (6/367) . ثمّ أخرجه هو، والبخاري في "الأدب المفرد" (ص 153) - من طريق خارجة
ابن الحارث بن رافع بن مَكِيث الجهَني-، والدارقطني (ص 20) - عن خارجة بن عبد الله؛ قال الأول: عن سالم بن سرج، وقال الأخر: نا سالم أبو النعمان-... به
وخارجة بن الحارث هذا ثقة اتفافاً. وأما خارجة بن عبد الله- وهو ابن سليمان بن زيد بن ثابت الأنصاري-؛
فمختلف فيه. قال ابن ماجه: سمعت محمداً يقول: أم صُبية: هي خولة بنت قيس. فذكرت لأبما زرعة؟ فقال: صدق.
قلت: وقد جاء مصرحاً باسمها في رواية الدارقطني، وكذا البخاري. والحديث حسنه العراقي في "التثريب " (2/39) .