موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ)
حکم : صحیح
770 . حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَفْطَرَ بِعَرَفَةَ وَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ أُمُّ الْفَضْلِ بِلَبَنٍ فَشَرِبَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأُمِّ الْفَضْلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ يَصُمْهُ (يَعْنِي يَوْمَ عَرَفَةَ) وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ عُمَرَ؛ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ يَصُمْهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الإِفْطَارَ بِعَرَفَةَ لِيَتَقَوَّى بِهِ الرَّجُلُ عَلَى الدُّعَاءِ. وَقَدْ صَامَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَوْمَ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ
جامع ترمذی:
كتاب: روزے کے احکام ومسائل
(باب: میدانِ عرفات میں یوم عرفہ کے روزے کی کراہت کا بیان
)مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
770. عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں روزہ نہیں رکھا، ام فضل ؓ نے آپ کے پاس دودھ بھیجا تو آپ نے اسے پیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے۔۲- اس باب میں ابو ہریرہ، ابن عمر اور ام الفضل ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳- ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے اس دن کا (یعنی یوم عرفہ کا) روزہ نہیں رکھا اور ابو بکر ؓ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، عمر کے ساتھ حج کیا، تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا، اور عثمان کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا۔۴- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ عرفات میں روزہ نہ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں تاکہ آدمی دعا کی زیادہ سے زیادہ قدرت رکھ سکے۔۵- اور بعض اہل علم نے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ رکھا ہے۔