قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الاِشْتِرَاطِ فِي الْحَجِّ​)

حکم : صحیح 

941. حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ أَفَأَشْتَرِطُ قَالَ نَعَمْ قَالَتْ كَيْفَ أَقُولُ قَالَ قُولِي لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ مَحِلِّي مِنْ الْأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُونَ إِنْ اشْتَرَطَ فَعَرَضَ لَهُ مَرَضٌ أَوْ عُذْرٌ فَلَهُ أَنْ يَحِلَّ وَيَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَقَالُوا إِنْ اشْتَرَطَ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ وَيَرَوْنَهُ كَمَنْ لَمْ يَشْتَرِطْ

مترجم:

941. عبداللہ بن عباس‬ ؓ ک‬ہتے ہیں : ضباعہ بنت زبیرنے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگاسکتی ہوں؟(کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا:' ہاں، توانہوں نے پوچھا: میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: ' لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ مَحِلِّي مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي' (حاضرہوں اے اللہ حاضرہوں حاضرہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تومجھے روک دے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس‬ ؓ ک‬ی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر، اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ ؓم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ حج میں شرط لگالینے کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کرلی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائزہے کہ وہ حلال ہوجائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔ یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴- بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگابھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں ،یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے ۱؎ ۔