تشریح:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے جمہور کا یہی مسلک ہے اور عصر کے وقت سے متعلق امام ابو حنیفہ کا مشہور قول دو مثل کا ہے لیکن یہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ بلکہ بعض علمائے احناف نے صحیح احادیث میں اُن کے اس قول کو رد کر دیا ہے ( تفصیل کے لیے
دیکھئے: التعلیق الممجد علی موطا الإمام محمد، ص : ۴۱، ط/قدیمی کتب خانہ کراچی)۔
۲؎: اس سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
۳؎: پہلے دن جبرئیل علیہ السلام نے ساری نمازیں اوّل وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اوّل اور آخر وقت معلوم ہو جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسنادها صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه في "صحيحيهما". وقال الحافظ ابن حجر: " وهو صحيح لا مرية فيه "؛ لكن قوله: " وأبيه " شاذ) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود: نا إسماعيل بن جعفر المدني عن أبي سهيل نافع بن مالك بن أبي عامر... بإسناده- يعني: الذي قبله-. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين (1) ؛ وسليمان بن داود؛ هو العَتَكِي أبو الربيع الزهْراني البصري الحافظ. والحديث أخرجه البخاري (4/82 و 12/ 278) ، ومسلم (1/32) ، والبيهقي (2/466) من طرق عن إسماعيل بن جعفر... به. وقال الحافظ في "الفتح " (1/89) :وهو صحيح لا مرية فيه ".
قلت: لكن قوله: " وأبيه " شاذ؛ كما تقدم التنبيه عليه آنفاً.