Tarimdhi:
Chapters on Virtues
(Chapter: What Has Been Related About The Description Of The Prophet)
مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)
ترجمۃ الباب:
3638.
ابراہیم بن محمد جو علی بن ابی طالب ؓ کی اولاد میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ علی ؓ جب نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرتے تو کہتے: نہ آپﷺ بہت لمبے تھے نہ بہت پستہ قد، بلکہ لوگوں میں درمیانی قد کے تھے، آپﷺ کے بال نہ بہت گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تھے، نہ آپﷺ بہت موٹے تھے اور نہ چہرہ بالکل گول تھا، ہاں اس میں کچھ گولائی ضرورتھی، آپﷺ گورے سفید سرخی مائل، سیاہ چشم، لمبی پلکوں والے، بڑے جوڑوں والے اور بڑے شانہ والے تھے، آپﷺ کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے، صرف بالوں کا ایک خط سینہ سے ناف تک کھنچا ہوا تھا، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گوشت سے پُر تھے جب چلتے زمین پر پیرجما کر چلتے، پلٹتے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹتے، آپﷺ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت تھی، آپﷺ خاتم النبیین تھے، لوگوں میں آپﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، آپﷺ کھلے دل کے تھے، یعنی آپﷺ کا سینہ بغض وحسد سے آئینہ کے مانند پاک وصاف ہوتا تھا، اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے، نرم مزاج اور سب سے بہتر رہن سہن والے تھے، جو آپﷺ کو یکایک دیکھتا ڈر جاتا اور جو آپﷺ کو جان اور سمجھ کر آپﷺ سے گھل مل جاتا وہ آپﷺ سے محبت کرنے لگتا، آپﷺ کی توصیف کرنے والا کہتا: نہ آپﷺ سے پہلے میں نے کسی کو آپﷺ جیسا دیکھا ہے اور نہ آپﷺ کے بعد۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے۔۲۔ (نسائی کے شیخ) ابوجعفر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کی تفسیر میں اصمعی کو کہتے ہوئے سنا کہ (الْمُمَّغِطُ) کے معنی لمبائی میں جانے والے کے ہیں، میں نے ایک اعرابی کو سنا وہ کہہ رہا تھا (تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَةٍ) یعنی اس نے اپنا تیر بہت زیادہ کھینچا اور (الْمُتَرَدِّدُ) ایسا شخص ہے جس کا بدن ٹھنگنے پن کی وجہ سے بعض بعض میں گھسا ہوا ہو اور (الْقَطَطُ) سخت گھونگھریا لے بال کو کہتے ہیں، اور (وَالرَّجِلُ) اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے بالوں میں تھوڑی خمیدگی ہو اور (الْمُطَهَّمُ) ایسے جسم والے کو کہتے ہیں جو موٹا اور زیادہ گوشت والا ہو اور (الْمُكَلْثَمُ) جس کا چہرہ گول ہو اور (الْمُشْرَبُ) وہ شخص ہے جس کی پیشانی میں سرخی ہو اور (الْأَدْعَجُ) وہ شخص ہے جس کے آنکھوں کی سیاہی خوب کالی ہو اور (الْأَهْدَبُ) وہ ہے جس کی پلکیں لمبی ہوں اور (الْكَتَدُ) دونوں شانوں کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور (الْمَسْرُبَةُ) وہ باریک بال ہیں جو ایک خط کی طرح سینہ سے ناف تک چلے گئے ہوں اور (وَالشَّثْنُ) وہ شخص ہے جس کے ہتھیلیوں اور پیروں کی انگلیاں موٹی ہوں، اور (التَّقَلُّعُ) سے مراد پیر جماجما کر طاقت سے چلنا ہے اور (الصَّبَبُ) اترنے کے معنی میں ہے، عرب کہتے ہیں (انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ) یعنی ہم بلندی سے اترے (جَلِيلُ الْمُشَاشِ سے مراد شانوں کے سرے ہیں، یعنی آپﷺ بلند شانہ والے تھے، اور (الْعِشْرَةُ) سے مراد رہن سہن ہے اور (عشیر) کے معنیٰ رہن سہن والے کے ہیں اور (الْبَدِيهَةُ) کے معنی یکایک اور یکبار گی کے ہیں، عرب کہتے ہیں بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ) میں ایک معاملہ کو لے کر اس کے پاس اچانک آیا۔
تشریح:
نوٹ: (سند میں ابراہیم بن محمد اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، ابراہیم کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)-
ابراہیم بن محمد جو علی بن ابی طالب ؓ کی اولاد میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ علی ؓ جب نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرتے تو کہتے: نہ آپﷺ بہت لمبے تھے نہ بہت پستہ قد، بلکہ لوگوں میں درمیانی قد کے تھے، آپﷺ کے بال نہ بہت گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تھے، نہ آپﷺ بہت موٹے تھے اور نہ چہرہ بالکل گول تھا، ہاں اس میں کچھ گولائی ضرورتھی، آپﷺ گورے سفید سرخی مائل، سیاہ چشم، لمبی پلکوں والے، بڑے جوڑوں والے اور بڑے شانہ والے تھے، آپﷺ کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے، صرف بالوں کا ایک خط سینہ سے ناف تک کھنچا ہوا تھا، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گوشت سے پُر تھے جب چلتے زمین پر پیرجما کر چلتے، پلٹتے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹتے، آپﷺ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت تھی، آپﷺ خاتم النبیین تھے، لوگوں میں آپﷺ سب سے زیادہ سخی تھے، آپﷺ کھلے دل کے تھے، یعنی آپﷺ کا سینہ بغض وحسد سے آئینہ کے مانند پاک وصاف ہوتا تھا، اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے، نرم مزاج اور سب سے بہتر رہن سہن والے تھے، جو آپﷺ کو یکایک دیکھتا ڈر جاتا اور جو آپﷺ کو جان اور سمجھ کر آپﷺ سے گھل مل جاتا وہ آپﷺ سے محبت کرنے لگتا، آپﷺ کی توصیف کرنے والا کہتا: نہ آپﷺ سے پہلے میں نے کسی کو آپﷺ جیسا دیکھا ہے اور نہ آپﷺ کے بعد۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے۔ ۲۔ (نسائی کے شیخ) ابوجعفر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کی تفسیر میں اصمعی کو کہتے ہوئے سنا کہ (الْمُمَّغِطُ) کے معنی لمبائی میں جانے والے کے ہیں، میں نے ایک اعرابی کو سنا وہ کہہ رہا تھا (تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَةٍ) یعنی اس نے اپنا تیر بہت زیادہ کھینچا اور (الْمُتَرَدِّدُ) ایسا شخص ہے جس کا بدن ٹھنگنے پن کی وجہ سے بعض بعض میں گھسا ہوا ہو اور (الْقَطَطُ) سخت گھونگھریا لے بال کو کہتے ہیں، اور (وَالرَّجِلُ) اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے بالوں میں تھوڑی خمیدگی ہو اور (الْمُطَهَّمُ) ایسے جسم والے کو کہتے ہیں جو موٹا اور زیادہ گوشت والا ہو اور (الْمُكَلْثَمُ) جس کا چہرہ گول ہو اور (الْمُشْرَبُ) وہ شخص ہے جس کی پیشانی میں سرخی ہو اور (الْأَدْعَجُ) وہ شخص ہے جس کے آنکھوں کی سیاہی خوب کالی ہو اور (الْأَهْدَبُ) وہ ہے جس کی پلکیں لمبی ہوں اور (الْكَتَدُ) دونوں شانوں کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور (الْمَسْرُبَةُ) وہ باریک بال ہیں جو ایک خط کی طرح سینہ سے ناف تک چلے گئے ہوں اور (وَالشَّثْنُ) وہ شخص ہے جس کے ہتھیلیوں اور پیروں کی انگلیاں موٹی ہوں، اور (التَّقَلُّعُ) سے مراد پیر جماجما کر طاقت سے چلنا ہے اور (الصَّبَبُ) اترنے کے معنی میں ہے، عرب کہتے ہیں (انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ) یعنی ہم بلندی سے اترے (جَلِيلُ الْمُشَاشِ سے مراد شانوں کے سرے ہیں، یعنی آپﷺ بلند شانہ والے تھے، اور (الْعِشْرَةُ) سے مراد رہن سہن ہے اور (عشیر) کے معنیٰ رہن سہن والے کے ہیں اور (الْبَدِيهَةُ) کے معنی یکایک اور یکبار گی کے ہیں، عرب کہتے ہیں بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ) میں ایک معاملہ کو لے کر اس کے پاس اچانک آیا۔
حدیث حاشیہ:
نوٹ: (سند میں ابراہیم بن محمد اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، ابراہیم کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)-
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sayyidina Ali (RA) described the Prophet (ﷺ) saying: He was neither very tall nor very short, but was of average height. His hair were neither very curly nor very straight, but slightly curly. He was not very fat. His face was not very round but had a roundish appearance. He was reddish-white with wide black eyes, long eye lashes. He had large joints and broad shoulders, fleshy between shoulders. He was not hairy except for a fine line of hair from his chest to navel. His palms and feet were hard and thick. When he walked, he put his feet down firmly on the ground raising them as though he walked down a slope. If he looked at anyone, he turned completely (not with a side glance). Between his shoulders was the seal of prophet hood, He was the seal of the Prophets and the best of men at heart (free from jealousy), truer speaker than all men, of mildest nature and noblest company. If, anyone saw him suddenly, he would be overcome with awe and he who chose his company, loved him. One who describes him admits, “I have never seen anyone like him before or [Ahmed 944] --------------------------------------------------------------------------------