تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے قبلے کا رخ معلوم نہ ہوسکے تو اندازے سے رخ متعین کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس اندازے میں اگر غلطی ہوجائے تو معاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ:286) ’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے کا مکلف نہیں فرماتا‘‘
(2) اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ غلطی سے قبلے کے سوا د وسری طرف پڑھی ہوئی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بادل کی وجہ سے قبلے کے سوا دوسری طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے پھر نماز کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس نے قبلہ رخ نماز ادا نہیں کی تو اس کی وہ نماز درست ہے۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے۔ (جامع ترمذي، الصلاۃ، باب ماجاء فی الرجل یصلی لغیر القبلة فی الغیم، حدیث:345)
(3) اگر نماز کے دوران میں پتہ چل جائے تو نمازی کوچاہیے کہ نماز کے دوران میں ہی قبلہ رخ ہوجائے۔ اور باقی نماز صحیح رخ پر مکمل کرلے۔ جیسے کہ اہل قباء نے تحویل قبلہ کی خبر سن کرنماز کے دوران میں ہی رخ تبدیل کرلیا تھا۔
(4) یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے دیکھئے: (الارواء، رقم:291)
الحکم التفصیلی:
قلت : وعلته عاصم هذا فإنه سيئ الحفظ وبقية رجاله عند الطيالسي ثقات رجال مسلم عدا أشعث بن سعيد . السمان وقد تابعه عنده عمرو بن قيس وهو الملائي احتج به مسلم . وللحديث شاهد من حديث جابر قال : " كنا مع رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) في مسير أو سرية فأصابنا غيم فتحرينا واختلفنا في القبلة فصلى كل رجل منا على حدة فجعل أحدنا يخطر بين يديه لنعلم أمكنتنا فلما أصبحنا نظرناه فإذا نحن قد صلينا على غير القبلة فذكرنا ذلك للنبي ( صلى الله عليه وسلم ) فقال : قد أجزأت صلاتكم " . أخرجه الدارقطن والحاكم ( 1 / 206 ) والبيهقي ( 2 / 10 ) من طريق محمد ابن سالم عن عطاء عنه وقال الحاكم : " هذا حديث محتج برواته كلهم غير محمد بن سالم فإني لا أعرفه بعدالة ولا جرخ "
وتعقبه الذهبي بقوله : " هو أبو سهل واه "
قلت : وضعفه الدارقطني والبيهقي كما يأتي وقد توبع فرواه الدارقطني والبيهقي من طريق أحمد بن عبيدالله بن الحسن العنبري قال : وجدت في كتاب أبي : ثنا عبد الملك بن أبي سليمان العرزمي عن عطاء به نحوه
وعبد الملك هذا ثقة من رجال مسلم لكن احمد بن عبيد الله العنبري ليس بالمشهور قال الذهبي : قال ابن القطان : مجهول . قال الحافظ في " اللسان " : " وذكره ابن حبان في " الثقات " فقال : روى عن ابن عتبه وعنه ابن الباغندي " لم تثبت عدالته وابن القطان تبع ابن حزم في اطلاق التجهيل على من لا يطلعون على حاله وهذا الرجل بصري شهير وهو ولد عبيد الله القاضي المشهور " . وأعله البيهقي بما فيه من الوجادة وليس بشئ كما بينته في تخريج صفة الصلاة وللحديث متابعة أخرى فرواه البيهقي عن محمد بن عبيد الله العرزمي عن عطاء به نحوه وقال : " تفرد به محمد بن سالم ومحمد بن عببد الله العرزمي عن عطاء وهما ضعيفان " . وكذا قال الدارقطني . وبالجملة فالحديث بهذا الشاهد مع طرقه الثلاث عن عطاء يرقي إلى درجة الحسن إن شاء الله تعالى