تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کوہمارے شیخ نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام احمد بن حنبل 86،85،84/26، وإرواء الغلیل للألباني، رقم الحدیث:4) لہٰذا راحج یہی ہے کہ مذکورہ حدیث میں بیان کردہ باتیں درست اور قابل عمل ہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) (نفخة) کا مطلب پھونک مارنا ہے۔ اس سے مراد ایک فرشتے (حضرت اسرافیل علیہ السلام) کا اس خاص چیز میں پھونک مارنا ہے۔ جسے قران مجید میں صور کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی قرنا یا بگل۔ یہ قیامت کے مراحل کی ابتداء ہے۔
(3) نفخات تین ہیں۔ ایک نفخة سے اس وقت موجود تمام ذی روح مخلوق بے ہوش ہوجائےگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّـهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾ (الزمر:68) ’’صور میں پھونک ماری جائے گی۔ تو آسمان والے اور زمین والے سب کے سب بے ہوش ہوجایئں گے۔ مگر جسے اللہ چاہے‘‘ دوسرے نفخة سے ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ ارشاد ہے۔ ﴿فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ ﴿١٣﴾ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً﴾ (الحاقة:14،13) ’’چنانچہ جب صور میں ایک پھونک ماری جائےگی۔اورزمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیئے جایئں گے۔‘‘ تیسرے نفخة سے تمام مخلوق دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ ارشاد ہے۔ ﴿ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾ (الزمر:68) پھر دوبارہ صور پھونکا جائےگا۔ پس وہ ایک دم کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے
(4) درود شریف ایک افضل عمل ہے۔ اورجمعے کا دن افضل ہے لہٰذا جمعے سے درود شریف کو ایک مناسبت حاصل ہے جس کی بنا پر جمعے کے دن درود شریف زیادہ پڑھنا چاہیے۔
(5) درود شریف پیش کئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی جاتی ہے۔ تاکہ رسول اللہ ﷺ کو امت کے نیک اعمال سے خوشی حاصل ہو ورنہ تمام اعمال کا ثواب اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔
(6) اس کا مطلب یہ نہیں کہ جونہی درود شریف پڑھا جاتا ہے۔ رسول للہ ﷺ کو فوراً اطلاع دی جاتی ہے۔ ممکن ہے کسی مناسب وقت پر اطلاع دی جاتی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ براہ راست کسی کا درود نہیں سنتے۔ نہ قریب سے، نہ دور سے بلکہ فرشتے آپﷺ تک پہنچاتے ہیں۔ قریب سے سننے کی روایت سنداً صحیح نہیں۔
(7) اس سے برزخی زندگی ثابت ہوتی ہے۔ اس زندگی پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اسے دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔ قبر میں مدفون شخص کا اپنے جسم سے تعلق بھی عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسے مسائل میں اپنی رائے سے کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ صرف اتنی بات مان لی جائے جس کی صراحت قرآن مجید یا صحیح حدیث میں موجود ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وقال الحاكم: " صحيح على
شرط البخاري "! ووافقه الذهبي! وصححه ابن حبان أيضا والنووي) .
إسناده: حدثنا هارون بن عبد الله: ثنا حسين بن علي عن عبد الرحمن بن
يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أوس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وأبو الأشعث الصنعاني: اسمه
شراحيل بن آده؛ وقد أخرج له البخاري في "الأدب المفرد".
والحديث أخرجه المصنف في "الاستغفار" (1370) من طريق أخرى عن حسين بن علي.
وأخرجه أحمد (4/8) : ثنا حسين بن علي الجُعْفِيُ. 0. به.
وأخرجه النسائي (03/21) ، والدارمي (1/369) وابن ماجه (1/336-
337 و 502) ، وابن حبان (550) ، والحاكم (1/278) ، والبيهقي (3/248) من
طرق عن حسين بن علي... به. وقال الحاكم:
" صحيح على شرط البخاري "! ووافقد الذهبي!
وإنما هو على شرط مسلم؛ لما ذكرنا في أبي الأشعث.
وقد أعِل الحديث بعلة غريبة، ذكرها ابن أبي حاتم في "العلل " (1/197) ،
وخلاصة كلامه: أن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر- وهو شامي- لم يحدتْ عنه
أحد من أهل العراق- كالجعفي-، وأن الذي يروي عنه أبو أسامة وحسين الجعفي
واحد، وهو عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، وهو ضعيف؛ وعبد الرحمن بن يزيد بن
جابر ثقة، وهذا الحديث منكر، لا أعلم أحداً رواه غير حسين الجعفي!
قلت: ويعني: أنه أخطأ في قوله: عبد الرحمن بن يزيد بن جابر؛ وإنما هو:
عبد الرحمن بن يزيد بن تميم؛ الضعيف!
وهذه علة واهية كما ترى؛ لأن الجعفي ثقة اتفاقاً؛ فكيف يجوز تخطئته لمجرد
عدم العلم بأن أحداً من العراقيين لم يحدِّث عن ابن جابر؟! وما المانع من أن يكون
الجعفي العرافي قد سمع من ابن جابر حين لزل هذا البصرة قبل أن يتحول إلى
دمشق، كما جاء في ترجمته؟! وتفرد الثقه بالحديث لا يقدح؛ إلا أدْ يثبت خَطَأهُ كماهو معلوم.
وقد أشار إلى هذه العلة الحافظ المنذري في "مض ت ص ره " (2/4) ، وفي
"الترغيب " (1/249) أيضا! وأطال الكلام في نقدها الحافظ الناجي فيما كتبه
عليه- أعني: "الترغيب "-، وليس كتابه في متناول يدي الأن؛ فإنه من
محفوطات المكتبة المحمودية في المسجد النبوي، وأنا أكتب الأن في دمشق، ولكنه
ختم كلامه بقوله:
" ليست هذه بعلة قادحة ".
ويؤيد ذلك تصحيح من صححه من الأئمة المتقدمين، وقد صححه النووي
أيضا في "رياض الصالحين " (ص 428) .
وللجعفي حديث آخر بهذا الإسناد، ذكرته تحت الحديث المتقدم (373) .
وللحديث شواهد يتقوى بها، تجد بعضها في "فضل للصلاة على النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
لإسماعيل القاضي رفم (23 و 28 و 29) ، والتعليق على حديث الباب منه رقم
(22- طبع المكتب الإسلامي- بتحقيقي) .