تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ اورانہی محققین کی رائے اَقْرَبُ إِلَی الصَّوّاب معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل، 413/2 وصحیح ابوداؤد (مفصل) حدیث:1274)
(2) وتر سے پوری نماز تہجد بھی مراد ہوسکتی ہے۔ اور تہجد کے آخر میں پڑھی جانے والی چند رکعتیں بھی۔ احادیث میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس حدیث میں اگر نماز تہجد مراد ہو تو وہ نفلی نماز ہے۔ تاہم اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ اوراگر تہجد کی آخری رکعتیں مراد ہوں۔ جو عرف عام میں وتر کہلاتی ہیں۔ تو انھیں سنت مؤکدہ قراردیا جا سکتا ہے۔
(3) وتر کے لفظی معنی طاق ہیں۔ یعنی وہ عدد جو دو پر تقسیم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اور ایک کا عدد سب سے پہلا طاق عدد ہے نماز وتر یا نماز تہجد مع وتر بھی طاق عدد میں ہوتی ہے۔ اس لئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔
(4) جو عمل اللہ کو پسند ہو وہ مومن کو بھی پسند ہوتا ہے۔ اس لئے اس پر اہتمام سے عمل کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحح، وصححه ابن خزيمة، وحسنه الترمذي) .
إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا عيسى عن زكريا عن أبي إسحاق
عن عاصم عن علي.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ وفي عاصم- وهو ابن ضمرة- كلام لا
يضر.
لكن أبو إسحاق- وهو السبيعي- كان اختلط، ثم هو مدلس؛ وقد عنعنه.
لكن يشهد لحديثه ما بعده؛ فهو به حسن إن شاء الله تعالى؛ بل هوصحيح لما
يأتي بيانه.
والحديث أخرجه النسائي (1/246) والترمذي (1/91) ، وابن ماجه
(1169) ، وابن خزيمة في "صحيحه " (1/117/1) ، وابن نصر في "الوتر"
(111) ، والحاكم (1/300) - شاهداً-، والبيهقي (2/عا 4) ، وأحمد
(1/110) ، وابنه (1/143 و 148) من طرق عن أبي إسحاق... به. وقال
الترمذي:
" حديث حسن ".