تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) وتر کا وقت تہجد کے بعد ہے۔ رات کے ہر حصے میں وتر پڑھنے سے رات کے ہر حصے میں تہجد پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ کا غالب معمول رات کے نصف آخر میں جاگنے کا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ ر ات کے پہلے حصے میں سوتے اور آخری حصے میں اُٹھ کرنماز پڑھتے تھے۔ پھر اپنے بستر پر آرام فرماتے تھے۔ جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔، (صحیح البخاري، التھجد، باب من نام أول اللیل وأحیا آخرہ، حدیث:1146) یہ صورت غالباً وہی ہے۔ جس کا ذکر اس حدیث مُبارک میں ہے۔ ’’اللہ کو سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے۔ اوراللہ کو سب سے محبوب روزہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ و ہ نصف رات سوتے (پھر) تہائی رات قیام فرماتے (پھر) رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے۔ اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہیں رکھتے تھے۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من نام عند السحر، حدیث:1131)
(3) رسول اللہ ﷺنے آخری عمر میں جو معمول اختیار فرمایا وہ صبح صادق تک نماز پڑھنے کا تھا تاہم فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیرلیٹ جاتے تھے۔