تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) سانپ اور بچھو کو نماز کے دوران میں مارنے کا اس لئے حکم دیا کہ یہ سخت موذی جانور ہیں اگر بھاگ گئے۔ تو ممکن ہے کہ وہ دوبارہ قابو میں نہ آئيں۔ اورکسی کو تکلیف پہنچایئں اس لئے انھیں فوری طور پر مارنے کی ضرورت ہے۔
(2) اس طرح کے حالات میں نمازی کا اپنی جگہ چھوڑ کرچلنا اور مارنے کے لئے لکڑی وغیرہ لے آنا۔ ایک ضرورت ہے۔ اس لئے اس سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔ نماز جہاں چھوڑی تھی وہیں سے دوبارہ شروع کردے۔
(2) اور بھی متعدد کام ایسے ہیں۔ جن کا کرنا نماز کے دوران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یا صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ ان کاموں کی وجہ سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ مثلا اشارے سے سلام کا جواب دینا، بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا، آگے سے گزرنے والے کو روکنا وغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخبن؛ غير ضمضم بن جوس؛ وهو ثقة.
والحديث أخرجه الإمام أحمد (2/473) : ثنا يحيى بن سعيد عن علي بن المبارك... به؛ إلا أنه قال: حدثني ضمضم... به.
وهذه فائدة عزيزة تفرد بها أحمد، وهي تصريح يحيى بالتحديث. ثم أخرجه أحمد (2/475) ، والترمذي (2/234) ، وابن حبان (528) من
طرق أخرى عن ابن المبارك... به. وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ".
وأحمد (2/233 و 248 و 255 و 284 و 490) ، والنسائي (1/178) ،
والدارمي (1/354) ، وابن ماجه (1/376) ، وابن الجارود في " المنتقى" (213) ،
والحاكم (1/256) ، والبيهقي (2/266) ، والطيالسي (1/109/502) من طرق أخرى عن يحيى بن أبي كثير... به. وقال الحاكم: " صحيح؛ وضمضم بن جوس من ثقات أهل اليمامة "، ووافقه الذهبي. وله شاهد من حديث ابن عباس... مرفوعاً: أخرجه الحاكم (4/270) بسند
واه.