تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) حدیث روایت کرنا اور علماء سے حدیث سنانے کی درخواست کرنا مستحسن ہے۔
(2) عالم کو حدیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ غلطی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے نہ فرمائی ہو۔ اس کے نتیجے میں ممکن ہے ایسی بات کوشرعی حکم سمجھ لیا جائے۔ جو حقیقت میں شرعی حکم نہیں۔
(3) نیک آدمی سے دعا کی درخواست کرنا درست ہے۔ خواہ دعا کسی انفرادی معاملہ سے تعلق رکھتی ہو یا کسی اجتماعی مسئلہ سے متعلق ہو۔
(4) جب کسی سے دعا کی درخواست کی جائےتو اسے چاہیے کہ دعا کردے انکار نہ کرے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی افضل وقت میں دعا کرنے کی نیت سے وقتی طور پردعا کو موخر کردیا جائے۔ جس طرح حضرت یعقوب نے علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا۔ ﴿سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ (یوسف:98) ’’میں جلد ہی تمھارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا۔وہ بہت بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔‘‘
(5) نماز استسقاء پڑھے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
(6) جب بارش اتنی زیادہ ہوجائے کہ تکلیف کا باعث بننے لگے تو بارش رکنے کی دعا کرنا بھی درست ہے۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بارش رحمت ہے۔ اس لئے ر حمت ختم ہونے کی دعا نہ کی جائے کیونکہ جس طرح ایک وقت بارش کا نزول رحمت ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرے وقت میں بارش کا رک جانا بھی ر حمت ہوسکتا ہے۔
(7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا فوراً قبول ہوجانا رب کی رحمت بھی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل اورمعجزہ بھی۔
(8) بارش مانگنے کےلئے حدیث میں مذکور دعا کا پڑھنا زیادہ برکت کا باعث ہے۔ اوراس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے۔
الحکم التفصیلی:
الاٰرواہ الغلیل:416
قلت : أما أن رجاله ثقات فصحيح وأما أن إسناده صحيح . فليس كذلك لأنه من رواية حبيب بن أبي ثابت عن ابن عباس وهو مدلس وقد عنعنه . ورواه الطبراني في الكبير نحوه . قال الهيثمي ( 2 / 213 ) " وفيه محمد بن أبي ليلى وفيه كلام كثير " . وفي الباب عن عمر بن الخطاب . قال عطاء بن أبي مروان الاسلمي عن أبيه قال : " خرجنا مع عمر بن الخطاب نستسقي فما زاد على الاستغفار " رواه ابن أبي شيبة ( 2 / 121 / 2 ) بإسناد صحيح .
الإرواء (2 / 145)