تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنا لینا درست نہیں۔
(2) عید کی نماز خطبے سے پہلے ہوتی تھی۔
(2) لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے اگر ایک غلطی رواج پا جائے۔ تو اس کو ختم کرنے کےلئے خلاف سنت طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔ کیونکہ وہ ایک اور غلطی ہوگی۔ عوام کا عید کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جانا غلطی ہے۔ اس پر توجہ دلانا اور اس سے روکنا ضروری ہے۔ تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ خطبہ عید کی نماز سے پہلے دے دیا جائے۔
(4) حاکم کی غلطی پر عوام کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بشرط یہ کہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تاہم علماء کو چاہیے کہ صحیح بات کا پرچار کریں۔ تاکہ اس پر عمل کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا ہوسکیں۔ اورغلط کام چھوڑنے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔
(5) اچھے کام پر سب کے سامنے تعریف کرنا درست ہے۔ جب کہ مقصد اچھا کام کرنے والے کی تایئد اور نیکی پر اسکی حوصلہ افزائی ہو۔
(6) حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اس سے اس کی تایئد اور حوصلہ افزائی مقصود ہے۔ سامعین میں سے بعض لوگوں نے اس شخص کی بات کونا مناسب تصور کیا ہوگا یا یہ سمجھا ہوگا کہ یہ بات تو صحیح ہے۔ لیکن اس موقع پر نہیں کہنی چاہیے تھی۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا۔
(7) غلطی کی اصلاح اور قوت سے برائی کوختم کردینا حکام کا فرض ہے۔ یا جس شخص پر اختیار حاصل ہو اسے بزور قوت روکا جا سکتا ہے۔ مثلاً، غلام، ماتحت، اولاد اور شاگرد وغیرہ ورنہ زبان سے روکنا کافی ہے۔
(8) زبان سے منع کرنا علماء کا فریضہ ہے۔ اورعوام کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔
(9) اگر کوئی شخص ایمان کی کمزوری یا جراءت وہمت نہ ہونے کی وجہ سے زبان سے بھی بُرائی کی شناعت واضح نہ کرسکے تو بھی دل میں گناہ سے نفرت بہرحال ضروری ہے۔گناہ کو اچھا سمجھنا پسند کرنا یا منع کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا ایک لحاظ سے گناہ میں شرکت ہے جو ایک مومن کے شایان شان نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في "صحيحه) .
إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا ابن جريج: أخبرني عمر بن عطاء بن أبي الخُوَار.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن أبي الخوار، فمن رجال مسلم فقط؛ وقد أخرجه كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (4/95 و 99) : ثنا عبد الرزاق وابن بكر قالا: أنا ابن
جريج. وأخرجه البيهقي (2/191) من طريقين آخرين عن عبد الرزاق... به.
وأخرجه مسلم (3/17) ، والبيهقي أيضا (2/190- 191 و 3/240) من طرق
أخرى عن ابن جريج... به.
وللحديث شاهد بإسناد صحيح، خرجته في "الصحيحة" (2549) .