تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اس باب کی تمام روایات کو اکثر محققین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ جن میں ہمارے فاضل محقق، دکتور بشار عواد اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں۔ تاہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (1296) کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے لیکن شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ شاید امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کودیگر شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہو جو ابن ماجہ کے مزکورہ باب کے تحت آئے ہیں۔ مذید لکھتے ہیں۔ کہ مذکورہ روایات انفرادی طور پرضعیف ہیں۔لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے۔ کہ مسئلہ کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے اور پھر اس مسئلہ کی تایئد میں ایک مرسل روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے میں شرکت اورعید الاضحیٰ او ر عید الفطر کی نماز کی ادایئگی کے لئے پیدل تشریف لے جاتے تھے۔ نیز سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ کہ عید الفطر کی تین سنتیں ہیں۔ عید گاہ کی طرف پیدل جانا۔ عید نماز کی ادایئگی کے لئے جانے سے پہلے کوئی چیز کھانا اور عید نماز کے لئے غسل کرنا۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (إرواء الغلیل، للألبانی: 104،103/3) الحاصل مذکورہ بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ عید گاہ کی طرف پیدل جانا کم از کم مستحب ضرور ہے۔ تاہم ضروریات کے پیش نظر سواری پر سوار ہو کر بھی جایا جا سکتا ہے۔واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وإسناده ضعيف جدا من أجل الحارث هذا فهو الأعور فقد كذبه الشعبي وأبو إسحاق وابن المديني وضعفه الجمهور . ولعل الترمذي إنما حسن حديثه لإن له شواهد كثيرة أخرجها ابن ماجه من حديث سعد القرظ وابن عمر وأبي رافع وهي وإن كانت مفرداتها ضعيفة فمجموعها يدل على أن للحديث أصلا . سيما وقد وجدت له شاهدا مرسلا عن الزهري : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يركب في جنازة قط ولا في خروج أضحى ولا فطر . أخرجه الفريابي في أحكام العيدين ( 127 / 2 ) : ثنا عبد الله بن عبد الجبار الحمصي ثنا محمد بن حرب ثنا الزبيدي عنه
(3/103)
قلت : وهذا سند صحيح رجاله كلهم ثقات ولكنه مرسل ( 1 ) . ثم روى الفريابي ( 127 / 1 و 2 ) عن سعيد بن المسيب أنه قال : ( سنة الفطر ثلاث : المشي إلى المصلى والأكل قبل الخروج والاغتسال . وإسناده صحيح .