تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جب بچیاں جوان ہوجایئں تو انہیں گھروں میں رہنا چاہیے۔
(2) عید کی نماز میں ان پردہ نشین بچیوں کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ تاہم پردے کا اہتما م کرکے باہر نکلیں۔
(3) حیض والی عورتیں بھی عید گاہ میں جایئں-
(4) اس میں یہ اشارہ ہے کہ مسجد عید پڑھنے کی جگہ نہیں کیونکہ حیض والی عورتیں وہاں نہیں جا سکتیں۔ جب کہ ان کا عید کے اجتماع میں حاضر ہونا ضروری ہے۔
(5) (دعوت المسلمین) کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جب مسلمان دعا کریں تو جن عورتوں نے ماہانہ عذر کی وجہ سے نماز نہیں پڑھی۔ وہ دعا میں شریک ہوجائیں۔ اسی طرح انھیں بھی خیر وبرکت میں حصہ مل جائے گا۔ دوسرا مفہوم وعظ وتبلیغ ہے۔ یعنی نماز نہ پڑھنے کے باوجود وہ خطبہ تو سن سکتی ہیں۔ اور جو مسائل بیان کیے جایئں۔ ان سے مستفید ہوسکتیں ہیں۔
(6) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کی نماز پڑھتے ہی خطبہ سنے بغیر نہیں چلے جانا چاہیے۔ اگرچہ حدیث:1290 کی روشنی میں چلے جانے کا جواز ہے۔ تاہم عید کی پوری برکات اورفوائد حاصل کرنے کے لئے خطبہ سننا ضروی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في "صحيحه ") .
إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن أيوب ويونس وحبيب
ويحيى بن عَتِيق وهشام- في آخرين عن محمد أن أم عطية قالت...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وحماد: هو ابن سلمة. وأيوب: هو السخْتِياني. ويونس: هو ابن عُبَيْدٍ. وحبيب: هو ابن الشهيد. وهشام: هو ابن عروة. ومحمد: هو ابن سيرين. وحماد؛ إنما قلت: إنه ابن سلمة؛ لأنه هو المشهور بروايته عن حبيب بن، وبرواية موسى بن إسماعيل عنه، حتى إنهم لم يذكروا في شيوخه غير ابن سلمة، وإن كنت أثبتّ- فيما تقدم برقم (490 و 657) - أنه قد روى عن حماد بن زيد أيضا.
وشيء آخر حملني على القول بذلك ، هو أنهم لم يذكروا في شيوخ ابن زيد حبيباً هذا، وإنما في شيوخ ابن سلمة.
ومع هذا؛ فيحتمل أن يكون حماد هنا هو ابن زيد، أو على الأقل يكون قد تابع ابن سلمة؛ لأنه قد رواه عن أيوب أيضا كما يأتي. لكن يؤيد ما رجحت أولاً قول الإمام أحمد (6/408) : ثنا عفان قال: ثنا
حماد بن سلمة قال: أنا هشام وحبيب عن محمد بن سيرين عن أم عطية... بحديث آخر.
صحيح أبي داود (1043) الصحيحة (2407)