تشریح:
فوائد و مسائل:
(مذکورہ باب کی دونوں روایتیں ضعیف ہیں۔ جنھیں محققین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم دوسرے دلائل کی رو سے عید کے دن غسل کرنامستحب ہے۔ جیسا کہ سنن ابن ماجہ ہی میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کےلئے جمعے کے دن کو عید بنایا ہے۔ چنانچہ جو شخص جمعے کے لئے آئے۔ تو اسے چاہیے کہ ٖغسل کرے۔ اور اگر خوشبو ہوتو استعمال کرے۔ اور مسواک بھی ضرور اہتمام کرے۔ (سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، باب ما جاء فی الزینة یوم الجمعة، حدیث:1098) اس حدیث سے علمائے حدیث یہ استدلال کرتے ہیں۔ کہ جب حدیث میں جمعہ کے دن غسل کرنے، خوشبو استعمال کرنے اور مسواک کرنے کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جمعے کو اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کے لئے عید بنایا ہے۔ تو عید کے دن ان تینوں کاموں کا کرنا اور زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوگا۔ علاوہ ازیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کرتے ہیں۔ کہ حضرت عبد للہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ عید الفطر کے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کیا کرتے تھے۔ (موطأ إمام مالک، العیدین:177/1) نیز شخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’إرواء‘‘ میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے۔ اور لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر کوئى صحیح مرفوع حدیث تو نہیں ہے البتہ موقوف روایت ہے۔ جو امام بیہقي سے مروی ہے انھوں نے آخر میں اس غسل کومستحب قرار دیا ہے اور اس کی تایئد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا ہے۔ لہٰذا ان تمام دلائل کی روشنی میں عید کے دن غسل کرنا ان شاء اللہ مستحب ہے۔ واللہ أعلم تفصیل کےلئے دیکھئے: (إرواء الغلیل:177،175/1، حدیث:146)
الحکم التفصیلی:
قلت : وقال أحمد في بعض حديثه : " كذب " وذكر غيره أنه كان لا يتعمد الكذب فهو واه جدا . وأما حديث الفاكه فأخرجه ابن ماجه ايضا ( 1316 ) وكذا عبد الله بن أحمد في " زوائد المسند " ( 4 / 78 ) والدولابي في " الكنى والأسماء " ( 1 / 85 ) من طريق يوسف بن خالد السمتي قال : ثنا يوسف بن جعفر الخطمي عن عبد الرحمن ابن عقبة بن الفاكه عن جده الفاكه بن سعد : " إن رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) كان يغتسل يوم الجمعة ويوم عرفه ويوم الفطر ويوم النحر وكان الفاكه بن سعد يأمر اهله بالغسل في هذه الأيام " . قلت : وهذا إسناد موضوع آفته السمتي هذا فانه كذاب خبيث كما قال ابن معين . وقال ابن حبان : " كان يضع الحديث " . والحديثان أوردهما الحافظ في " التلخيص " ( ص 143 ) وفي " الدراية " ( ص 23 ) وقال : " وإسنادهما ضعيفان " . قلت : وهذا الاطلاق قد يوهم من لا علم عنده انه يمكن أن يقوي أحدهما الآخر وليس كذلك لشدة ضعفهما كما بينا
وفي الباب عن أبي رافع أن النبي ( صلى الله عليه وسلم ) اغتسل للعيدين . رواه البزار وفيه مندل بن على وهو ضعيف وجماعة لم يعرفهم الهيثمي ( 2 / 198 ) . ولهذا قال الحافظ : " إسناده ضعيف "
( فائدة ) : ( وأحسن ما يستدل به على استحباب الإغتسال للعيدين ما روى البيهقي من طريق الشافعي عن زاذان قال : سأل رجل عليا رضي الله عنه عن الغسل ؟ قال : اغتسل كل يوم إن شئت فقال : لا الغسل الذي هو الغسل قال : يوم الجمعة ويوم عرفة ويوم النحر . ويوم النحر . ويوم الفطر . وسنده صحيح )