تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) استخارے کا مطلب اللہ سے خیر اور بہتری کی درخواست ہے۔ جب کسی کام کا ارادہ ہوتو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلینا بہتر ہے۔ کہ اگر اس کا انجام میرے لئے بہتر ہے تو یہ خیریت سے مکمل ہو ورنہ جوکچھ میرے لئے بہتر ہو وہ حاصل ہوجائے۔
(2) استخارے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی جائے۔ اس کے علاوہ جو مختلف قسم کے استخارے مشہور ہیں۔ وہ سب غیر مسنون ہیں۔
(3) استخارے کے بعد خواب آنا شرط نہیں بلکہ کام کا انتظام کرنا چاہیے۔ اگر بہتر ہوگا تو خیریت سے مکمل ہوجائےگا۔ ورنہ کوئی رکاوٹ آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اس انداز سے مکمل ہونا میرے حق میں بہتر نہیں۔ اسی طرح اگر استخارے کے بعد اس کام پر دل مطمئن ہوجائے۔ تو وہ کام کرلیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔
(4) دعا میں ھٰذَ الأَمْر کی جگہ مطلوبہ کام کا نام لیناچاہیے۔ مثلاً ھٰذاَ النِّکَاح (یہ نکاح) ھذ السفر (یہ سفر) ھذہ التجارۃ (یہ تجارت وغیرہ یا ھٰذَ الأَمْر امر کہتے وقت دل میں اس کاتصور کرلیا جائے۔
(5) مجھے اس سے پھیر دے کامطلب یہ ہے کہ میں وہ کام نہ کروں اور دل میں بھی یہ خیال نہ رہے کہ کاش یوں کرلیتا تو بہتر ہوتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وأخرجه في "صحيحه " وكذا ابن حبان) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي وعبد الرحمن بن مقاتل خال القعنبي ومحمد بن عيسى- المعنى واحد- قالوا: ثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي: حدثني محمد بن المنكدر: أنه سمع جابر بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط البخاري؛ وقد أخرجه كما يأتي. وفي ابن أبي الموالي كلام يسير، لا يصره إن شاء الله تعالى؛ ولذلك قال الحافظ في " التقريب ":
" صدوق ربما أخطأ ".
والحديث أخرجه البخاري (3/37 و 11/531 و 13/" 32) ، والنسائي
(2/76) ، وعنه ابن السني في "عمل اليوم والليلة " (589) ، والترمذي (480) ،
وابن ماجه (1/417) ، وابن حبان (884) ، وأحمد (3/344) من طرق عن
عبد الرحمن بن أبي الموالي... به. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الرحمن بن أبي الموالي، وهو شيخ ثقة ".
وللحديث شاهد من حديث أبي هريرة... مرفوعاً به نحوه.
وآخر من حديث أبي سعيد الخدري؛ بزيادة في آخره، أوردته من أجلها في "سلسلة الأحاديث الضعيفة" (2305) .