تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) اللہ کے فیصلے کے مطابق کا مطلب یہ ہے کہ انھیں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق ملے اور ان سے اجتہادی غلطی نہ ہو۔
(2) پہلی دو درخواستوں کی قبولیت قرآن میں مذکور ہے۔ارشاد ہے: ﴿وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾ (ص:20) ’’ہم نے اسے حکمت دی اور بات کا فیصلہ کرنا‘‘ نیز ارشاد ہے: ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿٣٥﴾ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ ﴿٣٦﴾ وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ ﴿٣٧﴾ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ﴾ (ص:35) ’’انھوں نے کہا! اے میرے رب مجھے بخش دے۔ اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما۔ جو میرے سوا کسی کے لائق نہ ہو۔ بلاشبہ تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔ چنانچہ ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کردیا۔ وہ ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی۔ اور ہر عمارت بنانے والے غوطہ خور شیاطین (جنات) کو بھی (ان کے ماتحت کردیا) اور دوسرے (جنات) کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔‘‘
(3) اس حدیث میں بیت المقدس کی زیارت اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان ہے۔