تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ نیز ہمارے شیخ نے بھی تحقیق میں اس کی بابت لکھا ہے۔ کہ آئندہ آنے والی حدیث کے بعض حصے ا سکے شاہد ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ روایت سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔ وہاں پر ہمارے شیخ لکھتے ہیں۔ کہ یہ روایت بھی سنداً ضعیف ہے۔ لیکن اس کے بعد آنے رالی روایت (866) اس سے کفایت کرتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد:300،299/15)
(2۔اس حدیث میں فرض نماز کی اہمیت بیان ہوئی۔
(3) فرض نماز، فرض روزے، فرض حج۔ اور فرض زکواۃ پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ کہ ان میں حتیٰ المقدور کوتاہی نہ ہو۔
(4) نفل نمازوں، نفل روزوں، نفل حج وغیرہ اور نفل صدقات وخیرات کی اہمیت بھی بہت زیاد ہ ہے۔
(5) نفل نمازوں میں سب سے اہم وہ نمازیں ہیں۔ جنھیں سنت مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ اور وہ فرض نماز سے پہلے یا بعد میں ادا کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد نماز تہجد اہم ہے۔
(6) روانہ ہونے والے شاگرد کو مناسب نصیحت کرنا بہت مفید ہے تاکہ وہ آئندہ زندگی میں اس سے فائدہ اٹھائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وصححه الحاكم والذهبي وابن عبد البر وحمئنه
الترمذي) .
إسناده: حدثنا يعقوب بن إبراهيم: ثنا إسماعيل: ثنا يونس عن الحسن عن أنس بن حَكِيمٍ الضَبيِّ.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير أنس بن حكيم الضبي؛ وهو مجهول، كما قال ابن القطان وغيره. وذكر في ترجمته من "التهذيب " أنه اختلف فيه على الحسن على وجوه ذكرها؛ منها الوجه الآتي في الكتاب عقب هذا.
والحديث أخرجه البيهقي (2/386) ، وابن عبد البر في "التمهيد" (24/80) -
وصححه- من طريق المصنف.
وأخرجه الحاكم (1/262) ، وعنه البيهقي من طريق أخرى عن يعقوب بن إبراهيم الدوْرَقِي... به، وقال:
" صحيح الإسناد "! ووافقه الذهبي!
وأخرجه أحمد (2/425) : ثنا إسماعيل... به.
وتابعه علي بن زيد عن أنس بن حكيم الضبي ... به مرفوعاً مختصراً؛ ولم يشك.
أخرجه ابن ماجه (1/435- 436) ، وأحمد (2/295) .
وعلي بن زيد: هو ابن خدْعان؛ وفيه ضعف، فلا بأس فيه في المتابعات. ورواه قتادة عن الحسن فقال: عن خريثِ بن قَبِيصَةَ قال: قدمت المدينة، فقلت: اللهم! يَسِّرْ لي جليساً صالحاً! قال: فجلست إلى أبي هريرة، فقلت: إني سألت الله أن يرزقتي جليساً صالحاً، فحدِّثتي بحديث سمعته
من رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ لعل الله أن ينفعتي به! فقال: سمعت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول
... فذ كره.
أخرجه النسائي (1/81) ، والترمذي (1/269- 270) ، وقال النسائي: " خالفه أبو العوام... "، ثم ساق من طريقه عن قتادة عن الحسن بن زياد عن أبي رافع عن أبي هريرة... مرفوعاً به.
قلت: وأبو العوام: اسمه عمران بن دَاوَر؛ وهو صدوق يهم؛ فرواية همام- وهو ابن يحيى بن دينار- أصح؛ لأنه أوثق منه، احتج به الشيخان. وقال الترمذي:
" حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير هذا الوجه عن أبي هريرة ". ومن وجوه الاضطراب التي أشار إليها ابن حجر آنفاً: رواية حُمَيْد عن الحسن عن رجل عن أبي هريرة؛ وهو الوجه الأتي: