تشریح:
(1) حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے تھے۔ اور نبی علیہ السلام سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے پیاروں سے بھی پیار ہو۔ اسی وجہ سے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت بھی ایمان کا جز ہے۔ اور ان کے بارے میں دل میں نا مناسب جذبات رکھنا ایمان کے منافی ہے۔
(2) اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت صرف زبانی دعوے والی چیز نہیں، بلکہ ان کے اسوہ پر عمل کرنا اصل محبت ہے۔
(3) کسی بھی صحابی سے سرزدہونے والی اجتہادی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف باتیں کرنا یا ان کی معمولی لغزشوں کو بڑے جرائم باور کرانے کی کوشش کرنا درست نہیں۔ جس طرح بعض لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر عائد کیے گئے غلط الزامات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے مفسدین کا موقف درست ثابت کرنا چاہا ہے۔ اس کے برعکس بعض دوسرے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ خوارج نے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کو کافر قرار دیا، یہ سب غلط ہیں۔ صحابہ کرام کا اختلاف اجتہادی اختلاف تھا جس میں غلطی پر بھی ثواب ہے۔ اس موضؤع پر ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (العواصم من القواصم) کا مطالعہ مفید ہے۔ اردو میں (خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت۔) (مصنف حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: هذا كلام الحافظ وفي بعضه نظر ثراه في الحاشية.
(1)
__________
(1) وذلك من وجهين: الأول: إطلاقه الضعف على ابن أبي حفصة ينافي ماقاله في ترجمته من " التقريب ": " صدوق، إلا أنه شيعي غال ".
قلت: فإذا كان صدوقا فحديثه حسن على أقل الدرجات، ولا يضره أنه شيعي كما تقرر في علم المصطلح ويقوي حديثه هذا أن البيهقي أخرجه في رواية له من طريق اسماعيل بن رجاء الزبيدي قال: أخبرني من شهد الحسين بن علي حين مات...فذكر الحديث باختصار، وفي قول الحسين لسعيد: " تقدم فلولا أنها سنة ما قدمتك ".
واسماعيل هذا ثقة، وقد تابع ابن أبي حفضة، فهي متابعة قوية، وإن لم يسم فيها من شاهد القصة.
فقد سماه سالم كما رأيت وغيره أيضا كما يشير إلى ذك قول الحافظ " لكن رواه النسائي وابن ماجه..." لكن فيه ما يأتي وهو: الثاني: أنني لم أقف على الحديث في " الجنائز " سنن النسائي وابن ماجه، ولم يورده النابلسي في " الذخائر " في مسند الحسين ولا في منسد.
أبي حازم.
والله أعلم.
أحكام الجنائز (66)