تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اس سند کے ساتھ تو یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم صحیح ابن خزیمہ میں یہ حدیث ان الفاظ میں وارد ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جب کوئی شخص نماز پڑھے۔ تواپنے جوتے اپنے دایئں طرف نہ رکھے۔ نہ اپنے بایئں طرف رکھے۔ سوائے اس حال کے کہ اس کے بایئں طرف کوئی نہ ہو۔ (نمازی کو) چاہیے کہ انھیں اپنے دونوں پاؤں کے درمیان رکھ لے۔ (صحیح ابن خذیمة، الصلاۃ، جماع أبواب الصلاۃ علی البسط، باب ذکر الزجر عن وضع المصلی نعلیه عن یسارہ إذا کان عن یسارہ مصلٍ۔۔۔) اس پر علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ اس کی سند حسن ہے۔ جیسے کہ میں نے صحیح ابو داؤد، حدیث: (661) میں بیان کیا ہے۔ اور اس سے پہلی والی روایت (1009) کی سند کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ حاشیہ حدیث:1016) یعنی شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے وہاں اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔
(2) جوتے بایئں طرف رکھنا اس وقت منع ہیں۔ جب بایئں طرف کوئی نمازی موجود ہو۔ اس صورت میں وہ اس نمازی کی دایئں طرف ہو جایئں گے۔
(3) جوتے پیچھے رکھنا جائز ہے۔ لیکن اگر پیچھے کوئی اور شخص نماز پڑھ رہا ہو تو یہ جوتے اس کےلئے اذیت کا باعث ہوں گے۔ اس صورت میں اپنے پیچھے نہ رکھے۔ ہاں ایسی جگہ رکھ سکتا ہے۔ جہاں وہ کسی دوسرے نمازی کے دایئں طرف نہ ہوں۔ یعنی بالکل پیچھے یا بالکل بایئں طرف رکھے۔
(4) بعض علماء نے لکھا ہے کہ جب دایئں طرف جوتے رکھنا ممنوع ہے تو نمازی کا اپنے آگے جوتا رکھنا بطریق اولیٰ ممنوع ہوگا لیکن یہ استدلال اس لئے صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کہ جب ایک شخص جوتوں سمیت نماز پڑھے گا۔ (جو کہ ایک جائز امر ہے۔) تو اس صورت میں بھی تو جوتے دوسرے نمازی کے آگے ہی ہوں گے۔ اس لئے محض جوتوں کے آگے ہونے کو تو ممنوع نہیں سمجھا جا سکتا۔ ممانعت کی واضح نص ہونی چاہیے۔ جو کہ ہمارے علم کی حد تک نہیں ہے۔ دوسرا استدلال معجم صغیر طبرانی کی اس روایت سے کیا جاتا ہے۔ جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے۔ ’’جب تمھارا کوئی شخص جوتے اتارے توانھیں اپنے سامنے نہ رکھے۔ تاکہ جوتوں کی اقتداء لازم نہ آئے۔۔۔۔‘‘ (الحدیث) لیکن شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف ہی نہیں۔ سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھئے: (الضعیفة، حدیث:986) اس لئے اس حدیث سے بھی استدلال صحیح نہیں۔ اس اعتبار سے نمازی کے آگے جوتے ہونے یا رکھنے کی ممانعت کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے زیادہ سے زیادہ نمازی کے آگے جوتے رکھنے کو خلاف ادب تصور کرکے اس سے بچنے کو بہتر قرار دیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وقال العراقي: " سنده صحيح "، وصححه
الحاكم، يوافقه الذهبي. وأخرجه ابن خزيمة وابن حبان في "صحيحيهما") .
إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا عثمان بن عمر: ثنا صالح بن رستم أبو
________________________________________
عامر عن عبد الرحمن بن قيس عن يوسف بن ماهك عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم، فهو على شرطه.
ولولا ما في صالح بن رستم من الكلام من قبل حفظه؛ لقلت- كما قال العراقي
في "تخريج الإحياء" (1/130) -:
" سنده صحيح ".
ثم استدركت فقلت: إنه ليس على شرط مسلم؛ لأن عبد الرحمن بن قيس
هذا ظننت أولاً أنه أبو صالح الحنفي الكوفي- وهو من رجال مسلم-، ثم تيقنت
أنه ليس به، بل هو أبو رَوْح العَتَكِيّ البصري، روى له المصنف هذا الحديث فقط؛
وقد روى عنه جماعة من الثًقات، منهم يحيى القطان.
وذكره ابن حبان في "الثقات "، وأخرج هو وشيخه ابن خزيمة حديثه هذا في
"صحيحيهما"- كما في "التهذيب "-، وصححه الحاكم والذهبي كما يأتي. وأما
قول المنذري في "مختصره " (رقم 624) :
" ويشبه أن يكون الزعفرانيَّ البصريَّ، كنيته أبو معاوية، ولا يحتج به "!
فغير سديد. قال الحافظ في "التهذيب ". " وليس كما ظن؛ فإن الزعفراني
يَصْغُر عن إدراك يوسف بن ماهك. وأيضا؛ فقد ذكره ابن حبان في "الثقات ". وأما
الزعفراني؛ فواهي الحديث كما ترى ". ولذلك قال العراقي- بعد أن صححه كما
قلناه آنفاً-:
" وضعفه المنذري؛ وليس بجيد ".
والحديث أخرجه الحاكم (1/259) من طريق الحسن بن مُكْرَم: ثنا عثمان ابن
عمر... به.
________________________________________
وأخرجه البيهقي (2/432) من طريقه، ومن طريق المصنف أيضا. وقال
الحاكم:
" صحيح على شرط الشيخين "! ووافقه الذهبي! وهو من تساهلهما أو من
أوهامهما؛ فإن صالح بن رستم لم يخرج له البخاري في "صحيحه "، وإنما روى له
فيه تعليقاً.
ثم إن عبد الرحمن بن قيس قد علمت أنه لم يرو له غير المصنف؛ لكنه قد
سقط من إسناد الحاكم؛ فلا أدري أذلك منه أم ممن بعده؟!
والحديث: عند ابن خزيمة (1016) من طريقين عن عثمان بن عمر... به.
وله شاهد من حديث أبي بكرة بنحوه؛ بلفظ:
" ولكن ليخلعهما بين ركبتيه ".
رواه الطبراني في "الكبير" ، وفيه ضعف، كما في "المجمع " (2/55) .
وللحديث طريق أخرى عن أبي هريرة نحوه؛ وهو: