تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مصیبت پر صبر کا ثواب آخرت میں بھی ملتا ہے۔ اور دنیا میں بھی صبر کی وجہ سے اللہ کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔
(2) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے مراد قرآن مجید میں اللہ کا یہ فرمان ہے۔ ﴿وَبَشِّرِ ٱلصَّـٰبِرِينَ ﴿١٥٥﴾ ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَـٰبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوٓا۟ إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ ﴿١٥٦﴾أُو۟لَـٰٓئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَٰتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُهْتَدُونَ﴾ (البقرة:155۔157) اور ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے۔ جنھیں جب کوئی مصیبت آتی ہے۔ تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
(3) اس سے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کے ایمان کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ کہ بظاہر اس دعا کی قبولیت کا امکان نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمان نبوی ﷺ کی تعمیل کرتے ہوئے دعا کی اور ارشاد نبوی کو حق سچ جانا۔
(4) جو لوگ اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ ان کی حاجتیں پوری فرماتا ہے۔ اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔