تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرة: 183:2) ’’اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے۔جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیاگیا تھا تاکہ تم مقتی بن جاؤ‘‘
(2) تقویٰ کے حصول کے لئے صرف کھانے پینے سے پرہیز کافی نہیں بلکہ ہر قسم کےگناہوں سے بچنے کی شعوری کوشش مطلوب ہے۔ روزہ رکھ کر ہم اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی اللہ کے حکم کےمطابق پرہیز کرتے ہیں۔ تو جو کام پہلے بھی ممنوع ہیں۔ ان سے بچنا زیادہ ضروری ہے تاکہ مومن ان سے پرہیز کا عادی ہوجائے۔
(3) شریعت اسلامیہ میں روزے کے دوران میں بات چیت کرنا جائز ہے۔ بلکہ چپ کا روزہ شرعاً منع ہے دیکھئے: (صحیح البخاري، الایمان والنذور، باب النذر فیما لا یملك وفی معصیة، حدیث:6704)
(4) عبادات انسان کے روحانی اور جسمانی فائدے کے لئے مقرر کی گئی ہیں۔ یہ اللہ کی ر حمت ہے کہ وہ ان پراعمال پر آخرت میں بھی عظیم انعامات عطا فرماتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري بإسناد المصنف ومتنه. وصححه الترمذي) .
إسناده: حدثنا أحمد بن يونس: ثنا ابن أبي ذئب عن المَقْبُرِي عن أبيه عن أبي هريرة. قال أحمد: " فهمت إسناده من ابن أبي ذئب، وأفهمني رجل إلى جنبه؛ أراه ابنَ أخيه ".
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
والحديث أخرجه البيهقي (4/270) من طريق المصنف.
والبخاري (10/389) ... بإسناده ومتنه؛ إلا أنه اختصر جداً قول أحمد
- وهو ابن عبد الله بن يونس- فقال: قال أحمد: أفهمني رجل إسناده!
انظر "فتح الباري ".
ثم أخرجه البخاري (4/93) ، والترمذي (707) ، وابن ماجه (1/517) ، وابن
خزيمة في "صحيحه " (1995) ، وأحمد (2/452 و 505) من طرق أخرى عن ابن أبي ذئب... به. وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ". وليس عنده زيادة: " والجهل ". وهو رواية لابن خزيمة، ورواية البخاري هذه. وأخرجه ابن المبارك في "الزهد" (1307) ... بالزيادة. (تنبيه) : سقطت هذه الزيادة من الأصل، فاستدركتها من رواية البيهقي عن
المصنف، ومن رواية البخاري بإسناده.