تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اونٹوں کی زکاۃ میں جن عمروں کی اونٹنیاں وصول کی جاتی ہیں وہ یہ ہیں:
(ا) بنت مخاض، یعنی ایک سالہ اونٹنی ۔
(ب) بنت لبون یعنی دو سالہ اونٹنی ۔
(ج) حقہ، یعنی تین سالہ اونٹنی
(د) جذعہ، یعنی چار سالہ اونٹنی۔
(2) زکاۃ میں صرف اونٹنیاں، یعنی مونث ہی قبول کی جاتی ہیں۔ صرف ابن لبون (دو سالہ مذکر) بنت مخاض (ایک سالہ مونث) کے متبادل کے طور پر وصول کیا جاسکتا ہے ۔ (3) اگر ریوڑ میں مطلوبہ عمر کی مونث موجود نہ ہو تو اس سے بڑی یا چھوٹی عمر کی مونث بھی وصول کی جاسکتی ہے۔ عمر کے ایک سال کے فرق کے متبادل دو بکریاں قرار دی گئی ہیں، لہٰذا زکاۃ میں اگر مطلوبہ عمر سے کم عمر کی اونٹنی وصول کی گئی ہے تو ساتھ دو بکریاں یا ان کی قیمت مزید وصول کی جائے گی تاکہ مطلوبہ زکاۃ اور وصول شدہ کے فرق کا ازالہ ہو جائے ۔ اسی طرح اگر مطلوبہ عمر سے زیادہ عمر کی اونٹنی وصول کی گئی ہے تو یہ فرق دو بکریاں یا ان کی قیمت کی صورت میں واپس کیا جائے گا تاکہ واجب مقدار سے زیادہ زکاۃ وصول نہ کی جائے۔
(4) ابن لبون کو چونکہ بنت مخاض کے برابر قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا ایک سالہ مونث کی جگہ دو سالہ مذکر اونٹ کی ادائیگی کی صورت میں حساب برابر ہو جائے گا۔ نہ زکاۃ دینے والے سے مزید کسی چیز کا مطالبہ کیا جائے گا اور نہ زکاۃ وصول کرنے والا کوئی چیز واپس کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
(5) دو بکریوں کی قیمت بیس درہم مقرر کی گئی ہے، یہ اس دور کے مطابق ان کی اوسط قیمت تھی۔ موجودہ دور میں ماحول کے مطابق بازار میں بکریوں کی جو قیمت ہو، اس کے مطابق صول کرنی چاہیے۔
(6) اونٹوں، گایوں اور بکریوں میں سے ہر ایک ریوڑ کی کل تعدا د شمار کرتے ہوئے بچے، بڑے، مذکر، مونث تمام جانور شمار کیے جائیں گے لیکن زکاۃ ادا کرتے وقت صرف مقررہ عمر کے جانور ہی دیے جائیں گے۔
الحکم التفصیلی:
. قلت : ولأكثر فقرات الحديث أو كثير منها شاهد من حديث ابن عمر رضى الله عنه . قال : " كتب رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) كتاب الصدقة فلم يخرجه إلى عماله حتى قبض فقرن بسيفه فعمل به أبو بكر حتى قبض ثم عمل به عمر حتى قبض فكان فيه : " في خمس من الإبل شاة . . . " الحديث بطوله . أخرجه أصحاب السنن والدارمي ( 1 / 381 ) وابن أبي شيبة ( 3 / 121 ) والحاكم ( 1 / 392 - 394 ) والبيهقي ( 4 / 88 ) وأحمد ( 2 / 14 و 15 ) من طريق سفيان بن حسين عن الزهري عن سالم عنه . وقال الحاكم : " وتصحيحه على شرط الشيخين حديث عبد الله بن المبارك عن يونس بن يزيد عن الزهري وإن كان فيه أدنى إرسال فإنه شاهد صحيح لحديث سفيان بن حسين " . ثم ساقه هو والدارقطني ( ص 209 ) عنه عن ابن شهاب قال : " هذه نسخة كتاب لرسول الله التي كتب الصدقة وهي عند آل عمر ابن الخطاب قال ابن شهاب : أقرأنيها سالم بن عبد الله بن عمر فوعيتها على وجهها وهي التي انتسخ عمر بن عبد العزيز من عبد الله بن عمر وسالم بن عبد الله حين أمر على المدينة فأمر عماله بالعمل بها وكتب بها إلى الوليد فأمر الوليد عماله بالعمل بها ثم لم يل الخلفاء يأمرون بذلك بعده ثم أمر بها
هشام فنسخها إلى كل عامل من المسلمين وأمرهم بالعمل بما فيها ولا ينقدونها وهذا كتاب يفسر " . لا يؤخذ في شئ من الإبل الصدقة حتى تبلغ خمس ذود فإذا بلغت خمسا فيها شاة . . . " الحديث بطوله . وقد تابعه سليمان بن كثير عن الزهري عن سالم عن اببه به . أخرجه البيهقي وروى عن البخاري أنه قال : " الحديث أرجو أن يكون محفوظا وسفيان بن حسين صدوق " .