تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ غریب اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں ۔
(2) مسلمان اپنی خوشی میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے ۔
(3) صدقہ فطر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روزے کے آداب میں ہو جانے والی کمی اور کوتاہی معاف فرما دیتا ہے۔
(4) نماز عید سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا آخری وقت ہے۔ عید کے دن سے پہلے ادا کر دینا بھی درست ہے۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاۃ، باب صدقة الفطر علی الحر والمملوک، حدیث:1511)
(5) اگر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں ادا کر دینا چاہیے اس سے اگر صدقہ فطر کا خاص ثواب تو نہیں ملے گا تاہم عام صدقے کا ثواب مل جائے گا اور اس طرح اس محرومی کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وحسنه ابن قد امة والنووي) .
إسناده: حدثنا محمود بن خالد الدمشقي وعبد الله بن عبد الرحمن السَّمَرْقَنْدِيُ قالا: ثنا مروان- قال عبد الله-: ثنا أبو يزيد الخَوْلاني- وكان شَيْخَ صِدْق، وكان ابن وهب يروي عَنه-: ثنا سَيَّارُ بن عبد الرحمن- قال محمود: الصّدَفِيّ عن عكرمة عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ غير أبي يزيد الخَوْلاني، ففيه قول مروان فقط- وهو ابن محمد الطَّاطَرِيّ-: " شيخ صدق ". ولكنهم قد اعتمدوه، فقال الحافظ فيه: " صدوق ".
وصحح حديثه هذا: الحاكم، وأقره جمع، وحسَّنه من ذكرناه آنفاً، وبيانه في " الإرواء " (843) .
والحديث أخرجه البيهقي (4/163) من طريق المصنف.
وأخرجه ابن ماجه وغيره ممَن ذكرته هناك، فلا داعي للإعادة، وفيه التنبيه على وهم وقع للحاكم فيه.
الإرواء (843