تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) عاشورا دس محرم کو کہتے ہیں۔ اس دن حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی تھی اور کافر سمندر میں ڈوب مرے تھے، اس لیے اس دن یہودی خوشی مناتے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث:1734) رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ممکن ہے خوشی کا اظہار بھی کیا ہو۔ بعد میں عاشورا کے روزے کا وجوب منسوخ ہو گیا اور خوشی کے لیے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن مقرر ہو گئے۔ اب ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ عاشورا کا روزہ رکھیں اور اس کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھیں تاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ رہے۔
(2) حضرت ربیع کی شادی کا واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو گا اس لیے رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ ورنہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ سے بھی پردہ کرتی تھیں۔ نبی ﷺ ان سے بیعت بھی پردے کے پیچھے سے زبانی اقرار کے ساتھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاري، الشروط، باب ما یجوز من الشروط فی الإسلام والأحکام والمبایعة، حدیث:2713)
(3) شادی کے موقع پر چھوٹی بچیوں کا گیت گانا اور دف بجانا جائز ہے۔
(4) بزرگوں کو چاہیے کہ خوشی کے موقع پر بچوں اور بچیوں کو جائز حد تک تفریحی مشاغل کی اجازت دیں لیکن جب بچے کوئی ناجائز کام کرنے لگیں تو انہیں توجہ دلائیں کہ یہ درست نہیں ۔
(5) رسول اللہ ﷺ کی تعریف اور نعت گوئی ایک مبارک عمل ہے لیکن غلو جائز نہیں۔ بزرگوں کی وہ صفات بیان کرنا جائز ہیں جو ان میں واقعتا موجود ہوں۔ مبالغے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(6) نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے ۔