تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا نام ہند بنت ابو امیہ ہے۔ ان کا نکاح حضرت ابو سلمہ سے ہوا تھا۔ حضرت ابو سلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی برہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے۔ جب 4 ہجری میں ان کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔
(2) اگر دلہن ثیب (بیوہ یا مطلقہ) ہو تب بھی اس کے پاس سات دن رہنا درست ہے لیکن اس صورت میں دوسری بیوی یا بیویوں کے پاس بھی سات سات دن رہ کر باری شروع کرنا ہوگی۔
(3) رسول اللہ ﷺ کی اس پیشکش کے جواب میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے تین دن کی مدت کا انتخاب فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البکر و الثیب من اقامة الزوج عندھا عقب الزفاف، حدیث:1460)
(4) اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس صورت میں باری جلد ملنے کی امید تھی۔ شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیویوں کے جذبات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين غير عبد الحميد ولا يضر فإنه متابعة وهو مقبول كما في ( التقريب ) . وللحديث طريقان آخران : الأول : عن عبد العزيز بن بنت أم سلمة عن أم سلمة به . أخرجه أحمد ( 6 / 320 ، 321 ) قلت : وعبد العزيز هذا مجهول كما قال الذهبي . الثاني : عن ابن عمر بن أبي سلمة عن أبيه عنها . أخرجه أحمد ( 6 / 295 ) وسنده ضعيف وتقدم .
الصحيحة (1271)