تشریح:
(1) اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔
(2) فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔
(3) اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔ اس سے اللہ تعالٰی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔
(4) جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔
(5) کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔ مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(6) کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی شیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی نجومی (یا رَمَّال) کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم، السلام، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان، حديث:2230)
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 510 :
أخرجه الحاكم ( 4 / 313 من طريق الأعمش عن أبي سفيان عن جابر رضي الله عنه
قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره .
و قال : " صحيح الإسناد على شرط مسلم " . و وافقه الذهبي
قلت : و هو كما قالا ، و عزاه السيوطي في " الجامع الكبير " ( 2 / 296 / 2 )
لأحمد أيضا و أبي يعلى و الضياء في " الأحاديث المختارة " .
و يفسره حديث فضالة بن عبيد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بلفظ :
" من مات على مرتبة من هذه المراتب بعث عليها يوم القيامة يعني الغزو و الحج "
أخرجه ابن قتيبة في " غريب الحديث " ( 1 / 129 / 2 ) حدثنيه أبي حدثنيه يزيد
عن المقرىء عن حيوة بن شريح عن أبي هانىء أن أبا علي الجنبي حدثه أنه سمع فضالة
بن عبيد به .
قلت : و هذا إسناد جيد لولا أني لم أعرف يزيد الراوي عن المقري - و اسمه عبد
الله بن يزيد المقري - و لا وجدت ترجمة لوالد ابن قتيبة و اسمه مسلم بن قتيبة
سوى ما ذكره الخطيب في ترجمة ابن قتيبة ( 10 / 170 ) :
" و قيل : إن أباه مروزي ، و أما هو فمولده بغداد " .