تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ہمارے فاضل محقق رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس میں حجۃ الوداع کا ذکر درست نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے جیسے صحیح مسلم میں مروی ہے۔ (صحیح مسلم، النکاح، باب نکاح المتعة ....، حدیث: 1406)
(2) متعہ کی اجازت وقتی طور پر خاص حالات کی وجہ سے دی گئی تھی، اس کے بعد ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں اس حدیث پر یہ عنوان لکھا ہے: ’’نکاح متعہ کا بیان یہ پہلے جائز تھا پھر (اس کا جواز) منسوخ ہو گیا پھر جائز ہوا پھر منسوخ ہو گیا اور قیامت تک کے لیے اس کی حرمت قائم ہو گئی۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، باب نکاح المتعة .... حدیث : 1405) سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح کے پہلے باب کی احادیث (حدیث: 1845، 1846) سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والے جوانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔اگر نکاح متعہ جائز ہوتا تو نبی ﷺ روزے کے بجائے نکاح متعہ کا حکم فرماتے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال "الصحيح ". وأخرجه مسلم، وزاد في
رواية: زمن الفتح. وهي المحفوظة، وفي رواية للمصنف: في حجة الوداع!
ولكنها شاذة، ولذلك أوردتها في الكتاب الآخر (353) ) .
إسناده: حدثنا محمد بن يحيى بن فارس: ثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر عن
الزهري عن ربيع بن سَبْرَةَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ غير ابن فارس، فهو على شرط
البخاري، لكنه قد توبع.
والحديث في "مصنف عبد الرزاق " (6/502/14034) ... بهذا السند
والمتن.
وعنه أيضاً: أخرجه أحمد (3/404) .
وأخرجه مسلم وغيره من طرق أخرى عن الزهري... به؛ وزاد في رواية:
زمن الفتح.
وفي رواية للمصنف:
في حجة الوداع! ولكنها رواية شاذة: والأولى هي المحفوظة، كما بينته في
"إرواء الغليل " (1901و 1902) .
الصحيحة (381)