تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) طلاق کے لیے بعض الفاظ صریح ہیں، مثلاً: ’’تجھے طلاق ہے۔‘‘ ’’میں نے تجھے طلاق دی۔‘‘ ان سے بالاتفاق طلا ق ہوجاتی ہے۔
(2) بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ انہیں’’کنایہ‘‘ کےالفاظ کہتے ہیں۔ ان میں کہنے والے کی نیت کو دخل ہے۔ اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہےہیں تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً: اس حدیث میں’’اپنے گھروالوں کے پاس چلی جا‘‘ سے مراد طلاق ہے لیکن حضرت کعب بن مالک کی توبہ کے مشہور واقعے میں جب رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بیوی سے مقاربت نہ کریں تو انہوں نے بیوی سے یہی الفاظ کہے: (الحقی باهلك) ’’اپنے گھروالوں کے ہاں چلی جا۔‘‘ اور وہ طلاق شمار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم اس گھر میں رہائش نہ رکھو جہاں میں موجود ہوں، ایسا نہ ہو کہ نبیﷺ کےحکم کی خلاف ورزی ہوجائے اور میں مقاربت کربیٹھوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك حدیث:4481)
(3) اس واقعہ سے متعلق چند فوائد حدیث: 2037 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔