تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) خلع کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا سارا یا کچھ حق مہر خاوند کو دے کر اس سے طلاق لے لے۔ خاوند کے لیے جائز نہیں کہ جتنا مال اسے دے چکا ہے، یا جتنا حق مہر مقرر ہوا ہے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرے۔
(2) خلع کی اس صورت میں جائز ہے جب عورت اس مرد کےنکاح میں نہ رہنا چاہتی ہواور مرد اسے صحیح طریقے سے بسانے کی خواہش مند ہو۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیوی کو تنگ کرتا ہے تاکہ وہ مجبور ہو کر خلع پرراضی ہوجائے تو یہ مرد کا عورت پر ظلم ہے۔
(3) عورت کے لیے جائز نہیں کہ کسی معقول وجہ کے بغیر خاوند سے طلاق لینے کی کوشش کرے۔
(4) اگر عورت واقعی یہ محسوس کرتی ہو کہ اس کااس مرد کے ساتھ نباہ مشکل ہے تو خلع لینا جائز ہے، تاہم جس طرح مرد کو حتی الوسع طلاق سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی طرح عورت کو چاہیے کہ جہاں تک خلع سےبچ کر گھر بسانا ممکن ہو، اس کی کوشش کرے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وصححه أيضاً ابن الجارود وابن حبان، وقال الترمذي: " حديث حسن ") .
إسناده: حدثنا سليمان بن حرب: ثنا حماد عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي أسماء عن ثوبان.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي أسماء- وهو عمرو بن مَرْثَد الرحبي-، فلم يخرج له البخاري إلا في "الأدب المفرد". والحديث مخرج في " الإرواء " (2035) .