تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی وجہ سے صحیح قراردیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثة مسند الإمام أحمد:26/ 347، 350، وإرواہ الغلیل: 7/ 176، 179، رقم : 2091) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔
(2) ’’ظہار‘‘ کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے: ’’تو میرے لیے ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو مجھ پر اسی طرح حرام ہے جس طرح ماں حرام ہوتی ہے۔
(3) ظہار کرنا گناہ ہے لیکن اس سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔ صرف اس وقت تک مقاربت منع ہو جاتی ہے جب تک کفارہ ادا نہ کرلیا جائے۔
(4) اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے پہلے ایک غلام آزاد کیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوتو دوماہ تک مسلسل روزے رکھے۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو ساٹھ مسکینوں کوایک وقت کھانا کھلادے۔
(5) جس شخص پر کسی وجہ سے کفارہ واجب ہو جائے اور وہ اتنا غریب ہو کہ ادا نہ کرسکتا ہو تومسلمانوں کو چاہیے کہ صدقات و زکاۃ سے اس کی مدد کریں تاکہ وہ کفارہ ادا کرسکے۔
(6) اگر مقررہ مدت کےلیے ظہار کیا جائے، پھر اس مدت میں مقاربت سے پرہیز کیا جائے تو کفارہ واجب نہیں ہوگا۔
(7) اگر ظہار میں مدت کا ذکر نہ ہو تو جب بھی بیوی سے ملاپ کرنا چاہے گا، ضروری ہوگا کہ اس سے پہلے کفارہ ادا کرے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن كما قال الترمذي، وصححه ابن الجارود والحاكم والذهبي، وحسنه الحافظ) .
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة ومحمد بن العلاء قالا: ثنا ابن إدريس عن محمد بن إسحاق عن محمد بن عمرو بن عطاء- قال ابن العلاء- بن علقمة ابن عياش عن سليمان بن يسارعن سلمة بن صخر.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير ابن إسحاق، وهو مدلس، وقد عنعنه. وسليمان بن يسار لم يسمع من سلمة. لكن للحديث طريق أخرى، وشاهد مختصر يتقوى به، وقد خرجت ذلك كله في " الإرواء " (2091) .