تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإرواء للألباني، رقم:١٣٣٤، والصحيحة للألباني، رقم:٢٦١٤، والموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد:١٢/٤٠١،٤٠٢) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
(2) اگر سودا کرتے وقت اختیار دیا جائے، یعنی ایک آدمی دوسرے کو کہہ دے کہ اگر تم چاہو تو سودا ختم کر سکتے ہو تو جتنی مدت مقرر کی ہے اس مدت کے اندر بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔
(3) اگر شرط نہ ہوئی ہو، پھر خریدار خریدی ہوئی چیز واپس کرنا چاہے، یا بیچنے والا اسی قیمت پر واپس کر دے۔ یہ بہت ثواب کا کام ہے۔
(4) ۔ بندہ دوسروں سے جس طرح کا سلوک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے اسی طرح کا سلوک کرتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: (إنَّمَا یَرْحَمُ اللہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَآءَ) (صحیح مسلم، الجنائز، باب البکاء علی المیت، حدیث:٩٢٣) ’’اللہ تعالیٰ اپنے رحم کرنے والے بندوں ہی پر رحم کرتا ہے۔‘‘
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 6 / 223 :
أخرجه الطبراني في " الأوسط " ( 1 / 140 / 2 ) : حدثنا أحمد بن يحيى الحلواني
حدثنا سعيد بن سليمان عن شريك عن عبد الملك بن أبي بشير عن أبي شريح قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فذكره . و قال : " لم يروه عن عبد الملك
إلا شريك " . قلت : و هو ابن عبد الله القاضي ، و هو صدوق لكنه سيىء الحفظ ، و
سائر رواته كلهم ثقات ، إلا أنه منقطع ، فإن عبد الملك بن أبي بشير إنما روايته
عن التابعين . و سعيد بن سليمان هو الضبي الواسطي . و الحلواني له ترجمة في "
تاريخ بغداد " ، و أبو شريح هو الخزاعي الكعبي اسمه خويلد بن عمرو على المشهور
، و هو صحابي معروف أسلم يوم الفتح . و للحديث شاهد يتقوى به من حديث أبي هريرة
، صححه ابن حبان و الحاكم و غيرهما ، و هو مخرج في " المشكاة " ( 2881 ) و "
الإرواء " ( 1334 ) و غيرهما .