تشریح:
(1) اس حدیث میں حدیث کا علم حاصل کرنے اور اس کی تبلیغ و تعلیم کے شرف کا بیان ہے کہ یہ کام انجام دینے والوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی ہے۔
(2) حدیث میں (نَضَّرَ اللهُ) کا لفظ ہے۔ اس کا اصل مفہوم دل کی خوشی کے اثرات کا چہرے پر ظاہر ہونا ہے جس کی وجہ سے چہرہ روشن اور چمکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
(3) اس میں تعلیم حدیث کا ایک فائدہ بیان کیا گیا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو حدیث یاد ہوتی ہے لیکن وہ استنباط اور اجتہاد نہیں کر سکتا۔ جب وہ حدیث دوسرے آدمی تک پہنچتی ہے تو وہ اس سے مختلف مسائل اخذ کر لیتا ہے۔ یا حدیث سنانے والے نے جو اس سے مسائل اخذ کیے ہیں، ہو سکتا ہے سننے والا اس سے زیادہ مسائل اخذ کر لے۔
(4) اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا، ممکن ہے بعد کے زمانے کا ایک آدمی اپنے سے پہلے زمانے والوں سے زیادہ اجتہاد کر سکتا ہو یا آئندہ زمانے میں ایسے حالات پیش آئیں کہ نئے اجتہاد کی ضرورت ہو، تب اس زمانے کے علماء ان احادیث کی روشنی میں شریعت کا منشا سمجھنے کی کوشش کریں جو ان تک پہنچی ہیں، لہذا جس طرح پہلے زمانے کے لوگ حدیث پڑھنے پڑھانے کی ضرورت رکھتے تھے، اسی طرح متاخرہ زمانہ والے بھی حدیث کی تعلیم و تعلم کے محتاج ہیں۔
(5) دل کے خیانت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ان تین معاملات میں کوتاہی نہیں کرتا اور ان تین کاموں سے جی نہیں چراتا۔ اس سے ان تین اعمال کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے۔
(6) مسلمانوں کے ائمہ سے مراد علماء اور حکام ہیں۔ علماء کی خیرخواہی، ان کا احترام اور خدمت ہے، اور ان کی غلطیوں سے درگزر کر کے ان کے صحیح اقوال پر عمل پیرا رہنا بھی اس میں شامل ہے، ہاں پورے احترام اور خدمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں کسی غلطی پر متنبہ کیا جا سکتا ہے۔ حکام کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کے جو احکام شریعت سے متصادم نہ ہوں، ان کی تعمیل کی جائے اور جو احکامات شرعا غلط ہوں، ان کی غلطی ان پر واضح کی جائے، نیز ان کی ہدایت اور اصلاح کے لیے دعا کی جائے، ان سے بغاوت نہ کی جائے تاکہ ملک میں فتنہ و فساد برپا نہ ہو۔
(7) مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنے کا مطلب یہ ہے کہ تفرقہ پیدا نہ کیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے مسلمانوں کے دشمنوں کو فائدہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 688 :
أخرجه الترمذي ( 2 / 30 ) من طريق الطيالسي و هو في " المسند " ( ص 145 رقم
1076 ) و كذا أحمد ( 3 / 436 ، 5 / 35 ) و ابن حبان ( 2313 ) من طريق شعبة عن
معاوية بن قرة عن أبيه مرفوعا . و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " .
قلت : و هو على شرط الشيخين ، و قد أخرج الخطيب ( 8 / 417 - 418 ، 10 / 282 )
الشطر الأول منه من هذا الوجه ، و رواه أبو نعيم في " الحلية " ( 7 / 230 ) .
و الشطر الثاني أخرجه ابن ماجه ( 2 / 6 - 7 ) ، و له شواهد كثيرة فراجع بعضها
فيما تقدم برقم ( 270 ، 1108 ) .