تشریح:
(1) بعض محققین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: (التعلق الرغیب:1؍58،57) و (ارواء الغلیل:6؍29)
(2) اس حدیث میں بطور مثال چند اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو کسی کی وفات کے بعد بھی گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا باعث بنتے رہتے ہیں، گویا اس کا عمل اب بھی جاری ہے۔
(3) حدیث میں مذکور تمام اعمال ایسے ہیں جو فوت ہونے والے نے اپنی زندگی میں خود کیے تھے، بعد میں کسی کی طرف سے قرآن پڑھنا یا نماز ادا کرنا اس میں شامل نہیں۔
(4) صدقہ وہی افضل ہے جو انسان اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں کیے جانے والے دوسرے اخراجات کا حال ہے۔ جب کوئی شخص شدید بیمار ہو جائے اور محسوس ہو کہ اب آخری وقت قریب ہے اس وقت صدقہ خیرات کرنا یا اس کی وصیت کرنا وہ مقام نہیں رکھتا۔ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: جو صدقہ تو اس وقت کرے جب تو تندرست ہو، مال سے محبت رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور تونگری کی امید رکھتا ہو، اور اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق میں آ پہنچے، پھر تو کہے کہ فلاں کو اتنا اور فلاں کو اتنا دینا۔ اب تو وہ مال انہی کا ہو چکا۔ (صحيح البخاري، الزكاة، باب: فضل صدقة الشحيح الصحيح، حديث:1419)