تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) سائل کے سوال میں اللہ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـلِحًا ثُمَّ اهتَدى﴾ (طہ20؍82) ’’اور بے شک میں اس شخص کو ضرور بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر ہدایت پر قائم رہے۔‘‘
(2) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے جواب میں اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَمَن يَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خـلِدًا فيها وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذابًا عَظيمًا﴾(النساء4؍93) ’’جوکوئی مومن کو قصداً قتل کرڈالے تواس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالی کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اللہ تعالی نے اس کےلیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔‘‘
(3) قتل کے گناہ کی معافی کئی طریقوں سے ممکن ہے:
(ا) قصاص میں قتل ہو جانے سے، کیونکہ حد لگنے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الحدود، حدیث:2603)
(ب) مقتول کے وارث کے معاف کردینے سے، خواہ یہ معافی دیت لے کر ہو، یا اللہ کی رضا کے لیے بلامعاوضہ ہو۔
(ج) خلوص دل سے سچی توبہ کرلینے سے (جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)۔
4۔ آیت مبارکہ میں قتل کے جرم کی اصل سزا کا ذکر ہے۔ اگر قاتل کو معافی نہ ملے تو اس کو یہ سزا مل سکتی ہے۔ بعض علماء نے اس سزا کو اس صورت پر محمول کیا ہے جب کہ قاتل قتل کو حلال سمجھے کیونکہ حرام کو حلال سمجھنا کفر ہے اور کافر کی سزا دائمی جہنم ہے۔ یا ہمیشہ رہنے سے طویل زمانے تک جہنم میں رہنا مراد ہے۔ دیکھئے: (تفسیر احسن البیان، سورۃ النساء، آیت:93)