تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) قرض کی اہمیت وصیت کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ قرض زندگی میں بھی واجب الادا ہوتا ہے اور موت کے بعد بھی جبکہ وصیت موت کے بعد ہی قابل عمل ہوتی ہے۔ قرض جتنا بھی ہو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ وصیت اگر تہائی ترکے سے زیادہ ہو تو تہائی تک قابل عمل ہوتی ہے، زائد نہیں۔
(2) میت کے مال سے سب سے پہلے کفن دفن خرچ کیا جاتا ہے، پھر قرض ادا کیا جاتا ہے، پھر جو کچھ بچے اس کے تہائی مال یا اس سے کم کی جو وصیت ہو، وہ پوری کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد باقی ترکہ وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(3) آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے وصیت پوری کی جائے پھر قرض ادا کیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزیں واجب ہیں۔ ان میں سے جو چیز پائی جائے وہ ادا کی جائے۔ اگر دونوں (وصیت اورقرض) موجود ہوں تو ترکے میں سے دونوں کی ادائیگی کرنے کے بعد باقی ترکہ تقسیم کیا جائے ۔ علاوہ ازیں وصیت کا ذکر پہلے کرنے میں یہ نکتہ بھی ہوسکتا ہے کہ وصیت پر عمل کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ قرض تو لوگ زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں۔ وصیت کو پہلے بیان کرکے واضح کردیا کہ اس پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، گو اس پرعمل قرض كى ادائیگی کےبعد ہی کیا جائے گا۔
(4) میت کے سگے بہن بھائی اس کے سوتیلے بہن بھائیوں پرمقدم ہیں۔
(5) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید اس کی بابت لکھا ہے کہ اسی مفہوم کی ایک حدیث حسن درجے کی پہلے گزر چکی ہے، وہ اس کی شاہد ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک مذکورہ روایت کی کوئی نہ کوئی اصل ضرورہے۔ علاوہ ازیں بعض محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ مزید تفصیل کےلیےدیکھئے: (الإرواء: 6؍107، 109، رقم: 1667)
الحکم التفصیلی:
قلت : وقد وجدت له شاهدا في المعنى يرويه حماد بن سلمة أخبرني عبد الملك أبو جعفر عن أبي نضرة عن سعد بن الأطول : " أن أخاه مات وترك ثلاثمائة درهم وترك عيالا فأردت أن أنفقها على عياله فقال النبي ( صلى الله عليه وسلم ) : إن أخاك محتبس بدينه فاقض عنه فقال : يا رسول الله قد أديت عنه إلا دينارين ادعتهما امرأة وليس لها بينة قال : فأعطها فإنها محقة " . أخرجه ابن ماجه ( 2433 ) والبيهقي ( 10 / 142 ) وأحمد ( 4 / 136 ، 5 / 7 ) وقال البوصيري في " الزوائد " ( 150 / 2 ) : " إسناده صحيح عبد الملك أبو جعفر ذكره ابن حبان في " الثقات " وباقي رجال الاسناد على شرط الشيخين " . كذا قال وحماد بن سلمة إنما إحتج به مسلم وحده . ثم قال : " قال المزي : رواه سعيد الجريري عن أبي نضرة عن رجل من أصحاب النبي ( صلى الله عليه وسلم ) ولم يسمه " . قلت : وهذه الرواية خرجها البيهقي أيضا من طريق عبد الواحد بن غياث ثنا حماد بن سلمة عن سعيد الجريري به . قلت : وعبد الواحد بن غياث ثقة صدوق فالظاهر أن حماد بن سلمة كان له إسنادان في هذا الحديث . فهو بهما صحيح فإن الجريري ثقة من رجال الشيخين وكان تغير لكن يقويه متابعة عبد الملك أبي جعفر له . ففي الحديث أنه ( صلى الله عليه وسلم ) أمر بوفاء الدين قبل إنفاق المال على الورثة فهو شاهد قوي لحديث الحارث . والله أعلم .